پاکستان کی پارلیمانی اور دینی تاریخ کا ایک فیصلہ کن اور یادگار دن — 7 ستمبر 1974 — جب قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک تاریخی آئینی ترمیم منظور کرتے ہوئے عقیدہ ختمِ نبوت کو آئینی تحفظ دیا اور قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
آئینِ پاکستان کی دفعہ 260 میں اس اہم شق کا اضافہ کیا گیا، جس کے مطابق”جو شخص خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو، اور آپ ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو، وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے تحت مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔”
یہ ترمیم پاکستان کی قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی، جہاں 130 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا۔ یہ قومی اتفاق رائے پاکستان کی نظریاتی اساس پر ایک مضبوط مہر تھا، جس نے مسلمانوں کے اس بنیادی عقیدے کو آئینی درجہ دیا۔
ترمیم کی منظوری کے بعد جب قرارداد اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دستخط کے لیے پیش کی گئی تو انہوں نے تاریخی جملہ ادا کیا”لاؤ، آج میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دوں۔”ان کے اس بیان کو وقت نے تاریخی حیثیت دے دی، جو اس فیصلے کی نزاکت اور عظمت دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ملک میں تمام اقلیتوں کو مکمل شہری و مذہبی آزادی حاصل ہے، اور قادیانی برادری کو بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ تاہم، ان سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ خود کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت تسلیم کریں، جیسا کہ 1974 کی آئینی ترمیم میں واضح کیا گیا ہے۔
یہ دن ہر سال پاکستان میں یومِ ختمِ نبوت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے مسلمان اپنے عقیدے پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں، اور عقیدہ ختمِ نبوت ان کے ایمان کی اساس ہے۔