سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 30 جولائی کو اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اجلاس ہو رہا ہے پاکستان میں شرح سود 11 فیصد ہے جب کہ انڈیا میں 5.5 اور چین میں 3 فیصد ہے گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد اضافے کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے مگر مانیٹری پالیسی ٹیکس ادا کرنے والے کاروباری سرگرمیوں کو دبا رہی ہے گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر 9 فیصد پر لایا جائے اور 31 دسمبر 2025 تک شرح سود کو 6 فیصد پر لایا جائے پاکستان مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹس میں با صلاحیت ہے مانیٹری پالیسی معاشی ترقی کا راستہ روک رہی ہے گوہر اعجاز نے کہا کہ 30 جولائی کو فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو مسابقتی سپورٹ ملتی ہے یا پھر نہیں۔
گوہر اعجاز نے کہا کہ پاکستان میں کاروباری لاگت علاقائی ممالک کے مقابلے میں دوگنی ہے پاکستان میں بجلی کا نرخ 12 سے 14 سینٹ فی یونٹ ہے جب کہ علاقائی ممالک میں بجلی 5 سے 9 سینٹ فی یونٹ میں دستیاب ہے پاکستان میں بے روزگاری 22 فیصد ، انڈیا میں 4.2 اور چین میں 4.5 فیصد ہے صنعتکار مانیٹری پالیسی کمیٹی سے کاروباری سرگرمیوں کو ترجیح دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں شرح سود میں کمی سے کاروباری لاگت کم ہوگی کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور روزگار ملے گا گوہر اعجاز نے کہا کہ شرح سود میں کمی سے 3 ٹریلین روپے کی بچت ہوگی معاشی پالیسی میں غیر ضروری درآمدات کو روکنے کے کئی طریقے ہیں گوہر اعجاز نے کہا کہ 2022 کا بوم اینڈ بسٹ سائیکل کم شرح سود کی وجہ سے نہیں آیا 2022 میں 3 ارب ڈالرز کی ویکسین درآمد کی گئی 2022 میں یوکرین جنگ کی وجہ سے 12 ارب ڈالرز تیل و گیس کی درآمد پر اضافی خرچ کیے گئے ان فیکٹرز کا ملکی شرح سود سے کوئی تعلق نہیں تھا سالانہ 5 فیصد مہنگائی کے مقابلے میں 11 فیصد شرح سود نا قابل فہم ہے