پاکستان میں موٹاپا سنگین قومی بحران قرار، 81 فیصد خواتین اور 74 فیصد مرد موٹاپے کا شکار

پاکستان میں موٹاپا سنگین قومی بحران قرار، 81 فیصد خواتین اور 74 فیصد مرد موٹاپے کا شکار

 پاکستان میں موٹاپا قومی صحت کا سنگین بحران بن چکا ہے جہاں 81 فیصد خواتین اور 74 فیصد مرد موٹاپے کی حد عبور کر چکے ہیں۔اس بات کا انکشاف ہفتے کے روز ماہرین صحت نے لاہور پریس کلب میں گیٹزفارما کے زیراہتمام منعقدہ موٹاپا آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سیمینار میں ماہرین نے موٹاپے کی جلد تشخیص، صحت مند خوراک، روزانہ کی جسمانی سرگرمی اور باقاعدہ چیک اپ کو نہایت ضروری قرار دیا۔ بچوں میں بڑھتے ہوئے اسکرین ٹائم اور کھیل کے میدانوں سے دوری پر بھی گہری تشویش ظاہر کی گئی اور فوری اقدامات کی اپیل کی گئی۔ ماہرین نے عالمی ادارۂ صحت کی اس درجہ بندی کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق موٹاپا اب ایک باقاعدہ بیماری تصور کیا جاتا ہے، اور پاکستان میں آگاہی مہم کی اشد ضرورت ہے۔

اس موقع پر صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مفت اسکریننگ کیمپ بھی لگایا گیا، جس میں ذیابیطس، بلڈ پریشر اور موٹاپے کے بلند شرح واقعات سامنے آئے۔ شرکاء کو انفرادی صحت رپورٹس اور طرزِ زندگی سے متعلق رہنمائی فراہم کی گئی۔ماہرین صحت نے خبردار کیا کہ ناقص خوراک، غیر متحرک طرز زندگی اور اسکرین کے بے جا استعمال نے ذیابیطس، دل کے امراض، بلڈ پریشر اور جوڑوں کی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔

ڈاکٹر غیاث النبی طیب، جو لاہور کے ڈاکٹرز اسپتال میں معدہ اور جگر کے امراض کے ماہر ہیں، نے بتایا کہ پاکستان میں موٹاپے کو تاحال ایک بیماری نہیں بلکہ تندرستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب مردوں کی کمر کا گھیر 35 انچ اور خواتین کا 31 انچ سے تجاوز کر جائے تو یہ موٹاپے کی واضح علامت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق چینی، چکنائی اور ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور خوراک اور ورزش کی کمی نہ صرف موٹاپے بلکہ ذیابیطس، بلڈ پریشر، فیٹی لیور اور جوڑوں کے درد کو بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ لوگوں کو زیادہ پروٹین اور فائبر والی خوراک لینی چاہیے اور روزمرہ زندگی میں جسمانی سرگرمی کو شامل کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب نوجوانوں میں بھی ذیابیطس عام ہوتی جا رہی ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔

سی پی ایس پی کے اکیڈمک بورڈ کے رکن پروفیسر ڈاکٹر عمران حسن خان نے وضاحت کی کہ پاکستان میں اگر بی ایم آئی 18 سے 23 کے درمیان ہو تو اسے نارمل سمجھا جاتا ہے، 23.1 سے 25 تک وزن زیادہ اور 25 سے 30 تک موٹاپے کی پہلی سطح ہوتی ہے۔ ان کے مطابق موٹاپا ایک بیماری ہے جسے جینیاتی عوامل، خوراک اور طرز زندگی نے بڑھایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انسولین کی زیادتی چربی کو جسم میں جمع کرتی ہے جس سے دل کے امراض اور بلڈ پریشر جنم لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی خوراک میں کاربوہائیڈریٹس کو 100 گرام سے کم رکھنا چاہیے اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس اور فائبر پر زور دینا چاہیے۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ موٹے افراد صحت مند ہوتے ہیں اور اس حوالے سے میڈیا کو کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر ڈاکٹر طارق سہیل نے موٹاپے کے پٹھوں اور ہڈیوں پر پڑنے والے اثرات کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جسمانی وزن میں اضافہ کششِ ثقل کے مرکز کو تبدیل کرتا ہے، جس سے پٹھے کمزور، ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ اور ہڈیوں کے ٹوٹنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھٹنے مکمل جسمانی وزن کو سہارا دیتے ہیں، اور غیر متوازن خوراک ہڈیوں اور پٹھوں کو بھی کمزور کر رہی ہے۔ انہوں نے رات گئے کھانے کے رجحان پر بھی تشویش ظاہر کی اور متوازن خوراک و جسمانی سرگرمیوں پر زور دیا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے گیٹز فارما کے ہیڈ آف پبلک ہیلتھ آپریشنز اینڈ ریسرچ، کاشف امین نے کہا، "صحت کے فروغ اور کمیونٹی میں آگاہی کے ذریعے ہم پاکستان میں صحت کی صورتحال کو نمایاں بہتر بنا سکتے ہیں، وسائل کی بچت ممکن ہے اور اوسط عمر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہمارا مقصد حفاظتی صحت کی سہولیات براہِ راست کمیونٹیز تک پہنچانا ہے، خاص طور پر صحافیوں تک جو عوامی صحت سے متعلق رائے اور رویے تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ موٹاپا اور ذیابیطس جیسے غیر متعدی امراض صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ان کا سماجی و معاشی پہلو بھی ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کے لیے۔ پریس کلبز کے ساتھ مل کر ایسے پروگرامز کا انعقاد اسی لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اسکریننگ، ماہرین صحت کے ذریعے تعلیم اور بروقت اقدامات کو فروغ دیا جا سکے، کیونکہ ایک صحت مند معاشرہ باشعور افراد سے ہی تشکیل پاتا ہے۔”

ماہرین نے عوام کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے کی نیند لینے، پانی کی مقدار کو خوراک کے ساٹھ فیصد کے برابر رکھنے، میٹھے مشروبات اور چائے میں چینی کے استعمال سے پرہیز کرنے اور کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ ورزش کرنے کا مشورہ دیا۔

-- مزید آگے پہنچایے --