سپریم کورٹ کے حکم پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے 2012 اور 2013 میں ریگولر کیے گئے ہزاروں سرکاری افسران کی اسکروٹنی شروع کردی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے محسن رضاگوندل اور دیگر کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر 13ستمبر 2024 کو فیصلہ سنایا تھا جس میں قرار دیاگیا کہ کابینہ کی سب کمیٹی کو گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسروں کی ریگو لرائزیشن کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار وفاقی پبلک سروس کمیشن (FPSC) کا ہے لہٰذا کمیٹی کے کیے گئے تمام کیسز ایف پی ایس سی کو بھیجے جائیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزارت قانون و انصاف سے رائے لینے کے بعد تمام وزارتوں، ڈویژنوں اور وفاقی محکموں کو 19مارچ2025کو ایک آفس میمو رنڈم بھیجا جس میں ہدایت کی گئی کہ سپر یم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنا یا جائے۔اس مشق سے 2012 اور 2013 میں خورشید شاہ کمیٹی کی سفارش پر ریگولر کیے گئے سیکڑوں افسران کا مستقبل بے یقینی اور خطرے سے دو چار ہوگیا ہےکیونکہ یہ اب ایف پی ایس سی کی اسکروٹنی سے مشروط ہوگیا ہے۔
متاثرہ افسروں کے دباؤ پر یہ عمل تاخیر کا شکار رہا لیکن اب متعلقہ وزارتوں نے ایسے کیسز ایف پی ایس سی کو بھجوانا شروع کردیے ہیں، دراصل یہ افسران اب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور ترقیاں بھی حاصل کرچکے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی ) نے کابینہ کی سب کمیٹی کی سفارش پر گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے ہزاروں افسروں کی ملازمت کی ریگو لر ائز یشن کی اسکروٹنی اور جانچ پڑتال کا عمل شروع کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سپر یم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے اب تک 14وزارتوں اور وفاقی محکموں نے ایسے 897 کیسز وفاقی پبلک سروس کمیشن کو بھجوا دیے ہیں تاہم بہت سی وزارتیں سیا سی دباؤ کی وجہ سے کیسز ایف پی ایس سی کو بھجوانے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں اور انہوں نے کیسز ابھی تک نہیں بھجوائے جو سپریم کورٹ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی حکم عدولی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا مؤقف ہے کہ جب تک ان افسروں کی تقرری کی ایف پی ایس سی سے توثیق نہیں ہوتی ان کو ترقی اور سنیارٹی بھی نہیں دی جاسکتی۔
ایک اور انکشاف یہ ہوا ہے کہ متاثرہ افسروں نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا ایک جعلی نوٹیفکیشن بھی سوشل میڈیا پر وائرل کردیا، اس کی وجہ ان افسروں کا ٹیسٹ اور انٹرویو میں فیل ہونے کا خوف ہے تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس نوٹیفکیشن کی تردید کردی۔ ایف پی ایس سی ان ریگو لرائز کیے گئے افسروں کے اہل اور موزوں( Fitness and eligiblity) ہونےکا تعین کر رہی ہے جس کے لیے ایف پی ایس سی نے 100نمبرز کا ٹیسٹ رکھا ہے جس میں سے 40 نمبر لینے والے افسر کو کامیاب قرار دیا جا تا ہے، اس کے بعد بورڈ انٹرویو کرتا ہے جس کے بعد کامیاب امیدواروں کو اہل قرار دے کر وزارت کو بھیج دیا جا تا ہے جب کہ فیل ہونے والے امیدواروں کو نا اہل قرار دیا جا تا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی سروس کے بعد بھی کئی امیدوار محض 40 فی صد مارکس لینے میں نا کام رہے۔
کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ جن محکموں کے کیسز مو صول ہوئے ان میں ایف آئی اے کے 21، وزارت انسانی حقوق کے 2، بیوروآف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے 25 ، نیشنل پولیس فا ؤنڈیشن کے 2، فیڈرل میڈیکل کالج کے 9، وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے 551، کابینہ ڈویژن کے 2، امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے 199، وزارت فوڈ سکیورٹی کے 3، ایف بی آر کے19، فیڈ رل جنرل ہسپتال کے 32 اور ملٹری انٹیلی جنس کے 32کیسز شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق وزارت صحت میں متعدد ذیلی اداروں کےکیسز اس زمرے میں آتے ہیں لیکن ابھی تک صرف 2 اداروں کےکیسز بھیجے گئے ہیں اور وزارت صحت نے نیشنل ٹی بی پروگرام، پمز اور پولی کلینک کے کیسز ابھی تک ایف پی ایس سی کو نہیں بھیجے ہیں۔