وزیر اعلیٰ پنجاب کے دعوے ہوا ہو گئے، غیر رسمی سکولوں کے اساتذہ طے شدہ کم ازکم اجرت سے محروم

وزیر اعلیٰ پنجاب کے دعوے ہوا ہو گئے، غیر رسمی سکولوں کے اساتذہ طے شدہ کم ازکم اجرت سے محروم

دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ،حکومت پنجاب کی جانب سے غیر رسمی بنیادی تعلیم دینے والے اساتذہ کامعاشی استحصال ،حکومت کی جانب سے مزدور کی طے شدہ کم ازکم اجرت بھی قوم کے معماروں کو نہ دے کر فروغ تعلیم کا مذاق اڑایا جا رہا ہے،ایک طرف حکومت فروغ علم کیلئے کوشاں نظر آتی ہے تو دوسری طرف حکومت پنجاب کے ذمہ دار ان نے قوم کے معماروں کو ساری ذمہ داریاں سونپ کر خود کوبری الذمہ کر رکھا ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے ،وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اوروزیر تعلیم پنجاب سکندر حیات خان کیلئے لمحہ فکریہ اور انکے فروغ علم کے بلند و بانگ دعوئوں پر سوالیہ نشان ہے،تفصیلات کے مطابق غیر رسمی بنیادی تعلیم کے فروغ کے مرکزی کردار قوم کے معماروں کی حالت زارنا قابل بیان ہے،پنجاب بھر میں پندرہ ہزار سے زائد غیر رسمی سکولوں میں تعینات مردوخواتین اساتذہ مہنگائی کے دور میںحکومت پنجاب سے بیس ہزار روپے وظیفہ حاصل کرکے اپنی مدد آپ کے تحت علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں،حیرت انگیر امر یہ ہے کہ غیر رسمی بنیادی تعلیم کی درسگاہیں نہ تو سرکار کی جانب سے بنائی گئیں، نہ ہی فرنیچر ،بجلی اور پانی جیسی سہولیات حکومت پنجاب کی جانب سے مہیا کی گئی ہیں،اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ Literacy & Non Formal Basic Education Department
Government of the Punjab(لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب)کیجانب سے پنجاب بھر میں قائم کئے گئے سکولوںکی عمارت ،بجلی اور پانی کی فراہمی کی ذمہ داری بیس ہزار اعزازیہ حاصل کرنے والے اساتذہ پر عائد کی گئی ہے،سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت بنیادی سہولیات کی فراہمی کیساتھ علم کی شمع روشن کرنے والے اساتذہ کولٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب نے 35(پینتیس) طلباء کا ہدف بھی دے کر ہدایات جاری کررکھی ہیں کہ اگر کوئی استاد یا استانی محکمہ کی جانب سے کلاس میں پینتیس طلباء کی تعداد پوری نہیں کرپائے گا تو اسکی کارکردگی ناقص تصور کرتے ہوئے اسے فارغ کر دیا جائے گا،المیہ یہ ہے حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کی جانب سے مزدور کی کم از کم اجرت 37(سینتیس ہزار روپے) طے کی گئی ہے تمام سرکاری ،نیم سرکاری ، پرائیویٹ اداروں ،کارخانوں،صنعتوں ،ملوں،ریسٹورنٹس،ہوٹلوں،تعلیمی اداروں،کاروباری مراکز اور دکانداروں کو سختی سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کم از کم طے شدہ سرکاری اجرت پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کی چھتر چھایہ تلے اس قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور تعلیم یافتہ اساتذہ کو مزدور سے بھی کم اجرت دے کر فروغ علم کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اورپڑھو لکھوترقی کرو پنجاب کے نعرہ کی حقیقت عیاں ہوگئی ہے۔

-- مزید آگے پہنچایے --