اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بنیادی شرح سود میں ایک فیصد کمی کا فیصلہ مارکیٹ کی توقعات سے زیادہ قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی ریسرچ ادارے ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس نے کہا ہے کہ مرکزی بینک نے شرح سود کو 11 فیصد مقرر کر کے مالیاتی پالیسی میں نرمی کی طرف واضح اشارہ دیا ہے۔
ایس اینڈ پی کے مطابق حالیہ مہنگائی میں کمی اور بیرونی کھاتوں میں بہتری کے بعد اسٹیٹ بینک کے پاس آئندہ مہینوں میں شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش موجود ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو سال 2025 کے اختتام تک شرح سود میں مزید 100 بیسز پوائنٹس کی کمی متوقع ہے۔
عالمی سطح پر امریکی ٹیرف پالیسیوں کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اسٹیٹ بینک محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایس اینڈ پی نے کہا ہے کہ مقامی سطح پر صنعتی سرگرمیوں میں بہتری دیکھی جارہی ہے، تاہم پاکستان کی برآمدات میں کمی تشویش کا باعث ہے۔
ایس اینڈ پی نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل قریب میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کا دباؤ دوبارہ بڑھ سکتا ہے، جو مالیاتی پالیسی کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔
ادارے کے مطابق جون 2025 کے اختتام تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، تاہم پاکستان کو قرضوں کی سالانہ ادائیگی کے لیے مجموعی طور پر 27 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2025 کے لیے پاکستان نے اب تک 16 ارب ڈالر کی ادائیگیاں مکمل کر لی ہیں، جب کہ مزید 1.3 سے 1.5 ارب ڈالر کی ادائگیاں باقی ہیں۔
ایس اینڈ پی کے مطابق دوست ممالک سے رول اوورز کے باوجود اگلے مالی سال میں پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے تقریباً 9 ارب ڈالر کا اضافی بندوبست کرنا ہوگا۔