پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہترین تحقیق ہو رہی ہے، مگر اصل مسئلہ اس پر عملدرآمد کا ہے: مصطفیٰ کمال

پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہترین تحقیق ہو رہی ہے، مگر اصل مسئلہ اس پر عملدرآمد کا ہے: مصطفیٰ کمال

کراچی(سی این پی )وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں معیاری اور موثر تحقیق ہو رہی ہے، لیکن اصل چیلنج اس تحقیق کو عملی پالیسیوں اور زمینی سطح پر بہتری میں تبدیل کرنے کا ہے۔وہ ہفتے کے روز کراچی میں گیٹس فارما کے آڈیٹوریم میں ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ (ہیلتھ ریب) کے زیر اہتمام چھٹی انٹرنیشنل میڈیکل ریسرچ کانفرنس (IMRC) سے خطاب کر رہے تھے۔

وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ وہ اسلام آباد واپس جا کر ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ اور دیگر اداروں سے تمام تحقیقی رپورٹس طلب کریں گے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔ "ہمیں باتوں سے نکل کر عمل کی طرف جانا ہوگا۔ صحت کے مسائل کا حل ٹیکنالوجی اور موبائل ہیلتھ سلوشنز میں ہے۔”انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت ہر شہری کے قومی شناختی کارڈ نمبر کو اس کا میڈیکل ریکارڈ نمبر بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے تاکہ صحت کے ڈیٹا کو ڈیجیٹلائز کیا جا سکے۔مصطفیٰ کمال نے اعتراف کیا کہ اگرچہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، مگر بدقسمتی سے ہم بنیادی صحت کے اشاریوں، خاص طور پر پولیو جیسے مسئلے پر پیچھے ہیں۔ "مجھے ڈر ہے کہ کہیں افغانستان ہم سے پہلے پولیو کا خاتمہ نہ کر لے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان مل کر اس بیماری کا خاتمہ کریں۔”

ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں صحت کے مسائل کا حل مقامی حالات پر مبنی تحقیق میں ہے۔ انہوں نے قومی شناختی کارڈ کو میڈیکل ریکارڈ نمبر سے منسلک کرنے کے حکومتی منصوبے کو سراہا۔ڈیجیٹل ہیلتھ کے ماہر ڈاکٹر ذکی الدین احمد نے پانچ قومی بیماریوں کے رجسٹری پروگرام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بامعنی، مقامی تحقیق کی ضرورت ہے جو مستقبل کی صحت پالیسیوں کی بنیاد بن سکے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (DRAP) کے سی ای او ڈاکٹر عبید اللہ نے اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ادویات سے مزاحمت رکھنے والی تپ دق (DR-TB) وبائی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ڈریپ اب اپنے سینٹرل ریسرچ فنڈ سے صحت پر تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرے گا اور محققین کو دعوت دی کہ وہ عملی، حل پر مبنی منصوبے پیش کریں۔گیٹس فارما کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم حسین نے کہا کہ ان کی کمپنی ایسے تحقیقی منصوبوں کی حمایت کرتی ہے جو براہ راست مریضوں کی بہتری کا باعث بنیں۔ "ہم سمجھتے ہیں کہ سائنسی تحقیق کا اصل مقصد بہتر علاج، بہتر سروس اور معاشرے میں مثبت تبدیلی ہے۔ ہم شواہد پر مبنی پریکٹس اور مستند علاج کو فروغ دے رہے ہیں، خاص طور پر ان طبقات کے لیے جو صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔”

کانفرنس میں صحت کے شعبے میں نمایاں خدمات پر مختلف شخصیات کو اعزازات سے نوازا گیا۔ معروف سرجن پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، جب کہ پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق (خیبر میڈیکل یونیورسٹی) اور ڈاکٹر محمد رضا شاہ (آئی سی سی بی ایس) کو حاجرا بلو گولڈ میڈل برائے قومی صحت تحقیق دیا گیا۔ ڈاکٹر راحیلہ احمد کو ان کی خدمات پر خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔

اس موقع پر سینئر صحافی محمد وقار بھٹی (جیو نیوز اور دی نیوز انٹرنیشنل) کو سائنس پر مبنی صحت رپورٹنگ کے فروغ پر خصوصی ہیلتھ جرنلزم ایوارڈ دیا گیا۔ہیلتھ ریب کی جنرل منیجر مریم حبیب نے ادارے کی موجودہ تحقیقی سرگرمیوں اور شراکت داریوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا، "تحقیق صرف اشاعت تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا مقصد حقیقی تبدیلی اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانا ہونا چاہیے۔”

کانفرنس میں قومی ادارہ صحت اسلام آباد کے ڈاکٹر محمد سلمان اور ڈاکٹر ممتاز علی خان، جنرل عامر عمران، انڈس اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان، پروفیسر طیب سلطان، طبا ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر بشیر حنیف، پروفیسر سعید حامد، پروفیسر زینب صمد اور بین الاقوامی ماہر پروفیسر پال باراخ سمیت کئی اہم ماہرین نے شرکت کی۔

ہیلتھ ریب کے وائس چیئرمین پروفیسر اقبال آفریدی نے دماغی صحت کے بڑھتے مسائل اور مستند اعداد و شمار کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس شعبے میں تحقیق پر زور دیا۔کانفرنس کا اختتام صحت تحقیق، ٹیکنالوجی اور مریضوں کے تحفظ کو یکجا کرنے کے عزم کے ساتھ ہوا، جس میں قومی سطح پر بیماریوں کی رجسٹری، پالیسی سازی میں تحقیق کا کردار، اور نظام صحت میں انضمام پر زور دیا گیا۔چھٹی انٹرنیشنل میڈیکل ریسرچ کانفرنس "تحقیق، ٹیکنالوجی اور مریضوں کے تحفظ کا اشتراک” کے عنوان سے ایک مضبوط پیغام کے ساتھ ختم ہوئی کہ پاکستان کو تحقیق پر مبنی صحت پالیسی کی جانب بڑھنا ہوگا۔

-- مزید آگے پہنچایے --