پاکستانی میڈیا میں آج کل وہ خبریں اور موضوعات زیادہ نمایاں ہو رہے ہیں جو براہ راست عوام کی زندگی سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ ان موضوعات کا تعلق عمومی طور پر سلیبریٹی کلچر، ذاتی نوعیت کی خبروں اور گلیمر کی دنیا سے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ مسائل اور ایشوز جو عوام کی زندگی کے اہم پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں چند ایسی خبریں میڈیا میں چھائی رہی ہیں جو حقیقت میں عوام کے لیے اہمیت نہیں رکھتیں، جیسے کہ سیف علی خان پر قاتلانہ حملہ، امریکا سے آئی خاتون کی خبر اور راکھی ساونت جیسے موضوعات، جنہیں بار بار دہرا کر ٹرینڈ بنایا گیا۔ ان خبروں میں ایک خاص نوعیت کی گلیمر اور تفریح ہے، لیکن یہ عوام کے حقیقی مسائل اور ضرورتوں سے کہیں دور ہیں۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا میڈیا عوام کے مزاج کو کم تر سمجھتا ہے؟
پاکستانی میڈیا کا بنیادی مقصد عوامی شعور بیدار کرنا اور انہیں اہم مسائل پر آگاہی فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ تاہم، جب میڈیا ان مسائل کو نظر انداز کرتا ہے اور غیر ضروری یا کم اہم خبروں پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو یہ عوامی دلچسپی اور ضروریات کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ میڈیا کو اپنے اثر و رسوخ کا صحیح استعمال کرنا چاہیے تاکہ عوام کے حقیقی مسائل جیسے کہ معیشت، صحت، تعلیم، اور معاشی انصاف جیسے موضوعات پر توجہ دی جا سکے۔
عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کا ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ اس سے عوام کا میڈیا پر اعتماد کم ہوتا ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ میڈیا صرف سلیبریٹی خبروں اور متنازع موضوعات پر ہی توجہ دے رہا ہے، تو وہ اپنے مسائل کے حوالے سے میڈیا کی جانب سے کسی بھی مدد یا رہنمائی کی توقع کم کر دیتے ہیں۔ اس کا اثر میڈیا کی ساکھ پر پڑتا ہے اور لوگوں کا میڈیا سے رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔
ایک اور سنگین پہلو جو پاکستانی میڈیا کی خاموشی کا شکار ہے، وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ مختلف واقعات میں چوری، ڈکیتی، قتل اور زیادتی جیسے سنگین جرائم کی رپورٹس کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھر ان پر غیر ضروری حد تک چھوٹا سا فوکس ڈالا جاتا ہے۔ جب یہ خبریں کم یا بالکل نہیں دکھائی جاتی ہیں تو نہ صرف عوام کی آگاہی کم ہوتی ہے بلکہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات بھی ممکن نہیں ہو پاتے۔
اسی طرح مہنگائی جیسے مسائل بھی میڈیا کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ جب عوام کو روزمرہ کی زندگی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور معاشی پریشانیوں کا سامنا ہو، تو میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان مسائل پر زیادہ توجہ دے اور حکومت اور متعلقہ اداروں کو جواب دہی کے لیے مجبور کرے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اکثر اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو اپنے حقوق کے حصول میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں۔
میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو اجاگر کرے اور انہیں حل کرنے کے لیے مناسب پلیٹ فارم فراہم کرے۔ میڈیا کو اپنی ترجیحات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صرف تفریحی یا غیر ضروری خبروں تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ خبروں کا انتخاب کرتے وقت عوام کی ضروریات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھے۔
آخرکار، اگر میڈیا عوامی مسائل پر توجہ دینے میں غفلت برتے گا اور سلیبریٹی کلچر یا غیر ضروری خبروں کو اہمیت دیتا رہے گا تو یہ عوام کے ساتھ ایک بڑی ناانصافی ہو گی۔ اس کے بدلے، میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوامی مفاد کو ترجیح دے اور ہر قسم کے مسئلے پر بات کرے جو لوگوں کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہو، تاکہ عوام کی آواز سنی جا سکے اور انہیں اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے مواقع مل سکیں۔