پاکستان میں کرپشن کی بڑھتی ہوئی وبا

پاکستان میں کرپشن کی بڑھتی ہوئی وبا

پاکستان میں لفظ کرپشن شہرت عام حاصل کر چکا ہے۔پڑھے لکھے ان پڑھ شہری دیہاتی بچے جوان بوڑھے غرض کوئی ایسا نہیں جو اس لفظ سے آشنا نہ ہو اور اس کے مضر اثرات سے متاثر نہ ہو۔حکومت میں آنے سے پہلے سیاستدانوں کا سلوگن ہی کرپشن کا خاتمہ ہوتا ہے۔مگر آج تک کسی نے مکمل طور پر اس ناسور کی بیخ کنی کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔مالی کرپشن کے لئے تو مخالفین کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے کسی حد تک سب تیار رہتے ہیں مگر اخلاقی کرپشن جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اس کے تدارک کے لئے کوئی خاص تشویش نظر نہیں آتی ۔

مالی کرپشن کی بات کی جائے تو پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن غریب عوام پر سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے، کیونکہ اس کا براہ راست تعلق عوامی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور حکومتی خدمات کی فراہمی سے ہے۔ جب کرپشن بڑھتی ہے، تو عوامی فنڈز کا بڑا حصہ کرپٹ افراد یا گروپوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے، جس سے بنیادی ضروریات جیسے صحت، تعلیم اور دیگر سماجی خدمات متاثر ہوتی ہیں۔ غریب طبقہ پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہوتا ہے اور کرپشن کی وجہ سے انہیں ضروری خدمات تک رسائی میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں۔
پاکستان میں کرپشن کی شدت مسلسل بڑھتی جارہی ہے، اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسپشن انڈیکس 2024 نے اس حقیقت کو مزید واضح کردیا ہے۔ اس سال کے انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، اور ملک 135 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ درجہ بندی پاکستان کے عوام اور حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ بن گئی ہے، کیونکہ یہ انڈیکس صرف کرپشن کی موجودہ صورتحال کا عکاس نہیں بلکہ ملک کے انتظامی اور حکومتی نظام کی پیچیدگیوں اور کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسپشن انڈیکس 2024 کے مطابق، پاکستان نے 8 مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر کرپشن میں 27 ویں نمبر پر آکر اپنی پوزیشن مزید نیچے کرلی ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2023 میں پاکستان کی درجہ بندی 29 تھی، جس میں اس سال کی نسبت کچھ بہتری تھی۔ یہ کمی پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن، حکومتی اداروں کی بدعنوانیوں اور عوامی وسائل کے غلط استعمال کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اس انڈیکس کے مطابق، حکومتی اداروں کی جوابدہی اور بااثر گروپوں کا ریاستی وسائل پر قبضہ کرنے کے اسکور میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں پچھلے سال یہ اسکور 35 تھا، وہیں اس سال یہ بڑھ کر 39 ہوگیا ہے۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی نظام میں اداروں کی جوابدہی کا فقدان ہے، اور کرپٹ عناصر کے لیے کسی قسم کی سخت سزا یا قانونی کارروائی کا عمل تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔

پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے رشوت کا دینا یا کرپٹ پریکٹس کا سامنا کرنا اب معمول بن چکا ہے۔ انڈیکس میں اس کا اسکور 35 سے کم ہو کر 32 ہوگیا ہے، جو ایک اور سنگین مسئلہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ کاروبار کرنے والے افراد یا ادارے اس بات پر مجبور ہیں کہ وہ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے رشوت دیں یا کرپٹ طریقوں کا سہارا لیں، جس سے معاشی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

کرپشن کی بڑھتی ہوئی سطح کا ایک اور ثبوت عوامی فنڈز کے غلط استعمال کا معاملہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق، کرپشن کی وجہ سے عوامی فنڈز افراد یا کمپنیوں کو دینے کا انڈیکس 45 سے کم ہو کر 33 پر آچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی وسائل کا زیادہ تر حصہ کرپٹ طریقوں سے افراد یا گروپوں کو منتقل ہو رہا ہے، جس سے حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔
حکومتی اداروں اور سرکاری ملازمین کی بدعنوانیوں کا اسکور بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایگزیکٹو، عدلیہ، ملٹری اور قانون سازوں کا ذاتی مقاصد کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال کا اسکور 25 سے بڑھ کر 26 ہوگیا ہے، جبکہ پبلک سیکٹر میں کرپشن کا اسکور 20 سے کم ہو کر 14 ہوگیا ہے۔ یہ معلومات اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ پاکستان کے تمام اہم ادارے بدعنوانی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں، اور ان میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی کرپشن کی صورتحال دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تقابل کرنے پر مزید سنگین نظر آتی ہے۔ ڈنمارک بدستور پہلے نمبر پر ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں حکومتی ادارے کرپشن کی روک تھام میں کامیاب ہیں۔ فن لینڈ اور سنگاپور بھی بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، جو عالمی سطح پر شفافیت اور حکومتی کارکردگی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان کا کرپشن پرسپشن انڈیکس 135 ویں نمبر پر آنا ایک واضح اشارہ ہے کہ حکومت کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں کرپشن کی بڑھتی ہوئی سطح ایک سنگین بحران کا اشارہ دیتی ہے، جسے حل کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومتی اداروں کی جوابدہی، کرپشن کے خاتمے کے لیے مضبوط قانون سازی، اور کاروباری ماحول میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو پاکستان کی عالمی سطح پر کرپشن کی درجہ بندی میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، عوامی وسائل کے صحیح استعمال، حکومتی اداروں میں احتساب، اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا کرپشن پرسپشن انڈیکس بہتر ہو سکے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ میں اضافہ ہو۔

-- مزید آگے پہنچایے --