مہنگائی پر عوام کی دہائی، حکومت کی ڈھٹائی

مہنگائی پر عوام کی دہائی، حکومت کی ڈھٹائی

پاکستان میں اس وقت مہنگائی کا عذاب عوام پر بے پناہ بوجھ ڈال رہا ہے۔ اشیاء خوردونوش سے لے کر ضروریات زندگی تک سب کچھ مہنگا ہوچکا ہے اور اس کے اثرات عوام کی زندگی پر منفی انداز میں پڑرہے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صرف بیان بازی اور بیانات میں مصروف ہے۔ عوام کی دہائیاں، احتجاج اور مطالبات کے باوجود حکومت کی بے حسی اور ڈھٹائی میں کمی نظر نہیں آتی۔

حکومت اب بھی جھوٹ اور جھوٹے اعداد و شمار پیش کرکے عوام کو بیوقوف بنانے میں مگن ہے، ایک جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے مہنگائی کی شرح کو 9 سال کی کم ترین سطح پر 2.4 فیصد تک پہنچنے کی خوشخبری دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر چینی، سبزیوں، اور خوردنی تیل کی بڑھتی قیمتیں، جن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے باوجود پاکستان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ کمیٹی نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات کرے، اور رمضان المبارک میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرے۔

یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ حکومت مہنگائی کو حقیقتاً کم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے اور صرف جھوٹے اعداد و شمار پیش کرکے وزیراعظم اور ان کے وزراء مہنگائی میں پستی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف عوام کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے، دوسری طرف حکومت کے نمائندے عوامی مشکلات کا ادراک کرنے کے بجائے اپنے عیش و آرام میں مصروف ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ وہ لوگ جو ہر روز نئی قیمتوں سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی آواز حکومت کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ یہ سب کچھ اس بات کا غماز ہے کہ حکومت کے لیے عوام کی حالت کوئی معنی نہیں رکھتی، انہیں صرف اپنے اقتدار اور مراعات کی فکر ہے۔

مہنگائی کا اصل سبب حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔ جب تک حکومتی سطح پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جائیں گے، یہ صورت حال مزید خراب ہوتی جائے گی۔ ایک طرف روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے، دوسری طرف عالمی مارکیٹس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، مگر حکومت ان مسائل پر نظر رکھنے اور عوام کو ریلیف دینے کے بجائے صرف اپنی ترجیحات کو اہمیت دے رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی معاشی حالات بھی ایک اہم عنصر ہیں، لیکن جب حکومت نے ان مسائل کا ادراک کرتے ہوئے کوئی قابل عمل حکمت عملی تیار نہیں کی، تو اس کی ذمہ داری پھر عوام پر ہی آتی ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے کبھی بھی کوئی ٹھوس اقدامات یا ریلیف پیکج نظر نہیں آتا۔ حکومت کا یہ رویہ بے حسی کا مظاہرہ ہے۔

اگر حکومت نے فوری طور پر مہنگائی کے مسئلے پر سنجیدہ اقدامات نہیں کیے تو ملک میں معاشی بدحالی مزید بڑھ سکتی ہے۔ عوامی سطح پر احتجاج بڑھ سکتا ہے اور ملک میں سیاسی استحکام کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود حکومتی سطح پر مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

آخرکار، یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمیں صرف اعلانات اور دعوئوں پر یقین کر لینا چاہیے، یا پھر حکومت کو ان اقدامات کی طرف قدم بڑھانا ہوگا جو مہنگائی کی اس لہر کو روک سکیں؟ عوام کے ساتھ اس بدترین ظلم کا کیا جواز ہے؟ کیا حکومت کی ڈھٹائی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی مشکلات اس کے لیے کسی بھی اہمیت کی حامل نہیں ہیں؟ ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ہی سامنے آئیں گے، مگر اس وقت تک عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔

-- مزید آگے پہنچایے --