فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین سے منافی کوئی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کررہا ہے۔سماعت کا آغاز ہوا تو سابق چیف جسٹس، جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد انہ حملہ ہوا اور 9 مئی پر احتجاج ہوا دونوں واقعات کے سویلین میں کیا فرق ہے؟
وکیل احمد حسین نے جواب دیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعہ کے بعد 21 ویں ترمیم کی گئی جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔
آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا جس پر عدالت نےا ستفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیہ پر اعتراض ہے؟
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میرا اعلامیہ پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیہ میں کہا گیا 9 مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، کور کمانڈر اجلاس اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ جو خود متاثرہ ہو وہ شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن یادیو کیس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے تو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جیسے واقعات میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادیو پر بات نہیں کی گئی جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ مستقبل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اسکا ٹرائل کہاں ہوگا؟ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ اس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا۔
اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اچھا جی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے سپیشل ریمیڈی والوں کو استثناء ہے۔وکیل جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے کہا کہ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہیں؟ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ یہ حقیقت ہے مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا، میں اپنے دلائل کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ ملزمان کا مقدمہ یہاں پر لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں۔
اس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے، آرمی چیف اجازت نہ دیں پسند کا وکیل نہیں ملتا، فیصلہ کوئی کرتا فیصلہ کو کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے، ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی علی سمیت عدالتی فیصلوں سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں؟ ایف بی علی کیس میں قانونی شقوں کو برقرار رکھا گیا، ایف بی علی فیصلے کی کئی عدالتوں میں توثیق کی گئی، 21 ویں ترمیم کا فیصلہ سترہ ججز کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے، میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا پانچ منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو چھ ججز چلے جاتے، اگر ہماری عدالتوں کے سامنے شواہد نہیں ہونگے تو ملزمان بری ہی ہونگے، پھر کہا جائے گا عدلیہ کا نمبر 250 نمبر پر آگیا ۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں پچیس پچیس تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم چار سال کیلئے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں بنیں، بتائیں اکیسویں ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت سوموار تک ملتوی کردی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین سوموار کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔