پاکستان، پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کے قانون سے محروم

پاکستان، پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کے قانون سے محروم

بیرسٹر ایٹ لاء سید عون محمد بخاری

اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق ہو یا کوئی صوبہ پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کے قانون سے محروم ہے۔ وفاق میں National Institute of Health جیسا ادارہ موجود ہے مگر پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

صوبوں میں پبلک ہیلتھ ایمر جینسی پر کوئی قانون سازی موجود نہیں ہے۔ سموگ ہو یا وائرس عوام کو آئسولیشن یا کوار نٹائن کے نام پر غیر قانونی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ۱۴ دن تک ان کو اپنی آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے. کو وڈ 19 کے زمانے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک سو موٹو کیس میں وفاق اور صوبوں کو حکم دیا تھا کہ پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کی قانون سازی کی جائے جو کہ آج تک نہ کی گئی بلکہ وفاقی حکومت این کی او ی (NCOC) جیسے ادارے کو وجود میں لائی۔

نومبر ۲۰۲۴ میں وزارت صحت کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس کے مطابق این سی اوسکی ایک نان گزند ادارہ ہے اور اس کے حکم پر سرکاری ملازمین نے قومی خزانے سے پیسہ استعمال کیا ہے، اور پاکستانی عوام کو آئسولیشن یا کوار نٹائن کے نام پر غیر قانونی طور پر ہراساں کیا گیا۔

نومبر ۲۰۲۴ کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی اقسام ۱۹۱۸ سے دنیا میں موجود ہیں اور سرکاری ملازمین اس امر سے بخوبی واقف ہیں لیکن پاکستان کے کوڈ 19 کے آنے کے بعد کوئی فوری اقدام نہیں کیے گئے بلکہ پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کے قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد پر انڈر رپورٹنگ بھی کی گئی بلوچستان سندھ اور پنجاب میں ناقص اقدامات کی وجہ سے بہت کی اموات بھی ہوئیں

نومبر ۲۰۲۴ کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ہسپتال کسی قسم کی نئی پبلک ہیلتھ ایمر جینسی کے متحمل نہیں ہو سکتے. ناقص عملا وسائل کی کمی اور سر ولنس کا ناقص ترین نظام پاکستان کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کرے گا، بلوچستان میں نہ صرف وسائل کی کمی ہے بلکہ پاکستانیوں کی شناخت کی انفار میشن بھی بیرون ملک این جی اوز کو دی جاتی ہے جس پر کوئی قانون سازی نہیں ہے . مثلا ڈ یا پراٹیکشن ایکٹ پر قانون سازی کرنا

اپریل ۲۰۲۱ میں برطانیہ اور یورپ نے astraZeneca جیسی ویکسین کو بین کر دیا تھا کیونکہ یہ ویکسین انسانی جان کے لئے انتہائی خطر ناک ہے لیکن پاکستان میں اس کی 2.5 ملین ڈوز ز این ڈی ایم اے کے ذریعے اگست ۲۰۲۱ میں منگوائی گئی تھیں اور پاکستانی عوام پر تجربہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بہت سی اموات ہوئیں مگر اس کا مخصوص ڈیٹا موجود نہیں اور کسی قسم کا کوئی مالی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس لندن کی ہائی کورٹ میں آج تک ۸۴ سے زیادہ کیسز ہو چکے ہیں اور سائلین کو مالی معاوضہ بھی دیا گیا ہے اور اس کمپنی نے ۲۰۲۲ میں لندن ہائی کورٹ میں اقبال مجرم کیا کہ astraZeneca کے سائیڈ افیکٹس میں انسانی جان کا لینا شامل ہے۔ امریکہ میں ۲۰۱۹ سے لے کر آج تک astraZeneca کو اپنی ویکسین امریکی شہریوں پر استمعال کرنے کی اجازت نہیں۔

آنے والے وقتوں میں کرونا وائرس سے زیادہ سخت وائرسز بھی آئیں گے اور پبلک ہیلتھ ایمر جینسی پہ قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں آئسولیشن یا کوار نٹائن جیسے غیر قانونی اقدامات اٹھائے جائیں گے . تا حال گورنمنٹ سرونٹس خواہ وہ منسٹری آف ہیلتھ اسلام آباد کے ہوں، سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرڈرز کی حکم عدولی کر رہے ہیں اور خصوصی طور پر وفاقی حکومت پبلک ہیلتھ لاء بنانے سے قاصر ہیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --