آئینی بنچ نے 9 مئی کے محض مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیئے

آئینی بنچ نے 9 مئی کے محض مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیئے

سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا ہے اور اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیتے وقت آرٹیکل 233 کی غلط تشریح ہوئی، پانچ رکنی لارجر بنچ نے بنیادی حقوق معطل ہونے کا تاثر لیا، بنیادی حقوق ایمرجنسی کی صورت میں معطل ہوئے تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں تو بنیادی حقوق معطل ہونے کا کوئی تعلق نہیں، پرویز مشرف دور میں اپیل کا حق نہ دے کر حقوق معطل ہوئے تھے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 8(3) کے مطابق جہاں ذکر ہے وہ مانتے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ اس معاملے میں ایمرجنسی والی تو کوئی بات نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق معطل کرنے کیلئےایمرجنسی ہونا ضروری ہے،یہ معاملہ مختلف ہے کہ سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا یا نہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر کر دیا، آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا، آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کیلئے چھیڑا گیا، آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کر کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہو سکتا، اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کروا سکتی ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہو سکتا ہے، صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے نہ ایمرجنسی نافذ تھی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے، آرٹیکل 233 میں بنیادی حقوق معطل کرنے کی بات نہیں، آرٹیکل 233 میں ایمرجنسی کی صورت میں بنیادی حقوق معطل ہونے کی بات کی گئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر مملکت کے پاس اختیار ہے کہ بنیادی حقوق معطل کر سکے، ایگزیکٹو صدر مملکت کے آرڈر پر عملدرآمد کرواتی ہے، یہ تمام اختیارات ایگزیکٹو کے ہیں تو کوئی اور کیسے اس طرح کے معاملات دیکھ سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس غلام محمد مرزا نے وکیل سے کہا تھا دلائل اچھے تھے مگر میں متاثر نہیں ہوا، اس معاملے میں میرا بھی آپ سے یہی شکوہ ہے۔

دوران سماعت آئینی بنچ نے 9 مئی کے محض مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یہ دائرہ اختیار کون طے کرتا ہے کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا کس کا نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نو مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا کچھ کا اے ٹی سی میں؟

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کل کتنے ملزمان تھے؟ جن ملزمان کو ملٹری کورٹس بھیجا گیا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈر تو دکھائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ملٹری کسٹڈی لینے کا پراسیس کون شروع کرتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کئے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ایچ کیو، کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر ماضی میں دہشتگرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔

دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا تذکرہ بھی ہوا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی اس شق کو کالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہوگا، کیا اب کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے۔

وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کراچی میں ایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے ان کے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہ محض الزام تھا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے، ہمیں ایسے واقعات کا ڈیٹا فراہم کریں، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لیکر جا رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشتگردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔

9 مئی واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا؟ جسٹس حسن اظہر

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا 9 مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔

بعدازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

-- مزید آگے پہنچایے --