وزیراعظم نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کا افتتاح کردیا

وزیراعظم نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کا افتتاح کردیا

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے اس موقع کو پاکستان کے لیے عظیم دن قرار دیا اور کہا کہ بھارت کو ترقی دینے کے لیے سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عظیم دن ہے، بے پناہ چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پیچھے رہنے جانے پر رونے کا فائدہ نہیں، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس موقع پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کروں گا، جب 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے تھے، پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، اس سے بچنے کے لیے ہماری قیادت اور اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ سیاست نہیں، ریاست کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور تنائج میں پیدا حالات کا سامنا کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام روکنے کے لیے خطوط لکھےگئےتھے کہ پروگرام نہ کیا جائے، اس سے بڑی عوام کے ساتھ زیادتی کیا ہوسکتی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے 38 فیصد مہنگائی کا بوجھ برداشت کیا، کاروباری حضرات 22 فیصد شرح سود دیکھ کر خوفزدہ تھے، زر مبادلہ کے ذخائر محدود تھے، مجبوری میں ہمیں ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑا، اس کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھرپور تعاون کیا، ان کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگروام ہوگا، اس کی مثالیں موجود ہیں، پڑوسی ملک نے 90 کی دہائی کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قدرت نے اس ملک کو وسائل دیے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کیوں لینا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ریاستی ملکیتی اداروں نے 6 کھرب کا نقصان کیا، آئی ایم ایف پروگرام میں ہمیں 7 ارب ڈالرز قرض میں مل رہے ہیں تاکہ استحکام آئے اور پاکستان شرح نمو کی طرف جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر 6 کھرب کے نقصانات اس غریب قوم نے برداشت کیے جو دریا برد ہوگئے، 4 کھرب میں بننے والی بجلی 2 کھرب میں بکے تو 2 ارب کا خسارہ کس کے کھاتے میں ڈالیں، 70 سال میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی تو قرضے نہیں لیں گے تو کیا کریں گے، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم قائد اعظم کے فرمودات کے تحت چلتے تو آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا نہ ہوتا اور ترقی کے لیے درکار وسائل موجود ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم کتنا پیچھے چلے گئے ہیں، اس کا کوئی شمار نہیں، اس پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں، لعن، طعن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں گریبان میں جھانک کر، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہم فیصلہ کرلیں کہ ماضی میں نقصانات ہوئے، جو خامیاں یا کمزوردیاں ہوئیں، ان کو سامنے رکھ کر پوری قوم کام،کام اور کام، محنت، محنت اور محنت کا سفر اختیار کرے تو بلا خوف تردید میں آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا، ہمیں راستہ بدلنا ہوگا، بلکل نئی طرح استعمال کرنی ہوگی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ماضی قریب میں ہم متکبرانہ اور نا پسندیدہ رویوں کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہوگئے، ایک دوست ملک سے ہم نے ایک ارب ڈالرز کا قرضہ مانگا، وہاں کے اکابرین نے مجھے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آدھا ارب ڈالر پاکستان کو دے دیتے ہیں، شہباز شریف صاحب آپ کے ملک سے جواب آیا کہ یہ واپس رکھو، ہمیں نہیں چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بتائیے کہ ایک تو آپ مانگ رہے ہیں اور اوپر سے آپ اکڑ رہے ہیں کہ ہمیں نہیں چاہیے، یہ کتنا بڑا تضاد ہے، اس کے علاوہ ایک اور دوست کے خلاف جو باتیں کی گئیں، وہ میں اپنی زبان پر بھی نہیں لا سکتا، یا تو ہمارے اندر یہ صلاحیت ہوتی کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا، ایک طرف ہم نے کشکول اٹھایا ہوا ہے، دوسری طرف کہہ رہے کہ ہمیں نہیں لینا۔

شہباز شریف نے کہا کہ منموہن سنگھ نے نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیا، نواز شریف کے دور حکومت میں جو اصلاحات ہوئیں، ان پر عمل کیا، جو ریفارمز یہاں ہوئیں، ان کو اختیار کیا، اس کے بعد باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2013 سے 2018 کا دور آیا جس میں ہماری معیشت نواز شریف کی حکومت میں شرح نمو 6 فیصد سے بھی تجاوز کرگئی، مہنگائی سائھے تین فیصد پر تھی، وہ وقت آج بھی لوگوں کے ذہن میں بڑا تازہ ہے، اب ماضی میں جائے بغیر آگے بڑھنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پالیسی ریٹ 13 فیصد پر ہے، گورنر اسٹیٹ بینک بیٹھے ہیں، ان کے پاس ابھی بھی 8 پوائنٹس کی گنجائش ہے، اگر یہ چاہیں تو ایک قلم سے اس کو 13 سے 6 فیصد پر لے آئیں، لیکن میں اس کے اوپر پر زور نہیں دوں گا، کیونکہ اب وہ خود مختار بن گئے ہیں، اب کیا کریں، ان کو خود مختاری جنہوں نے دلوائی، کن وجوہات کی بنا پر، میں ان کو نہیں جانتا، لیکن میں ان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا، اس میں تمام اداروں کا کردار ہے، یہ انتہائی خوش کن، خوبصورت، منفرد تبدیلی ہے کہ حکومتیں اور ادارے مل کر کام کر رہے ہیں، میں نے ماضی میں اس طرح کی شراکت نہیں دیکھی، مجھے بڑے وسوسے ہیں لیکن دعا کرتا ہوں کہ یہ پارٹنر شپ قیامت چلتے رہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف نے نہیں کہا کہ 3 ٹریلین دریا برد ہو رہے ہیں، جب ہوگا تو قرض نہیں لیں گے تو کیا کریں گے، یہ ہے وہ چیلنج جس کا سامنا ہے، میکرو استحکام آچکی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ بلا مبالغہ کہوں گا کہ میں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں ملک کی بہتری کے لیے اس طرح کے تعاون کا تجربہ نہیں کیا جو میں نے پہلی دفعہ آرمی چیف اور ادارے کی طرف سے دیکھا، اللہ کرے کہ یہ اس طرح ہمیشہ جاری رہے، کیونکہ ہم اپنی اننگز کھیل کر گھر چلے جائیں گے، لیکن یہ ملک قیامت تک چلے گا۔

قبل ازیں اسلام آباد میں قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےنائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا۔

قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کے دلیرانہ اقدامات کی وجہ سے معیشت مستحکم ہورہی ہے، پاکستان کے عوام باہمت اور باصلاحیت ہیں، پاکستان کو چیلنجز درپیش ہیں تو بے پناہ موقع بھی میسر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھاکر ملک کو ترقی اور خوشحالی سےہمکنار کرناہے، ہمیں سماجی شعبے پرخصوصی توجہ دینا ہوگی، ہمیں آبادی اور وسائل میں عدم تعاون کو بہتر بنانا ہے، قرضوں کی ادائیگی معیشت پر بڑا بوجھ ہے،نجات حاصل کرناہوگی۔

گزشتہ روز احسن اقبال نے کہا تھا کہ اگلے پانچ برسوں کے لیے قومی معیشت کی بہتری کا منصوبہ شروع کیا جائے گا جو کئی نکات پر مبنی ہے جنہیں ملک کی ترقی و خوشحالی کےلیے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ پاکستان کو برآمدی معیشت کے فروغ کے لیے اپنے تمام مسائل پر توجہ دینی چاہیے اور آٹومیشن، نینوٹیکنالوجی اور خصوصی ٹیکنالوجی جیسے ای کامرس پر توجہ دینی چاہئے۔

-- مزید آگے پہنچایے --