پاکستان میں وبائی امراض میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔جو سالانہ 60 فیصد سے زیادہ اموات کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان اب ذیابیطس کے پھیلاؤ میں عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے، ذیابیطس کے ساتھ رہنے والے بالغوں کی تعداد 2011 میں 6.3 ملین سے بڑھ کر 2024 میں 36 ملین تک پہنچ گئی، اس کے ساتھ ساتھ10لاکھ لوگ ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ صرف ذیابیطس کی وجہ سے ملک میں روزانہ 1,100 سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں 2100سے زیادہ روزانہ کی اموات کا باعث بننے والی غیر متعدی بیماریوں میں خوراک کا ایک اہم کرادار ہے۔ میٹھے مشروبات اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال دل کی بیماریوں، ذیابیطس، موٹاپا اور دیگر غیر متعدی امراض میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈز میں اس قسم کے کھانے آتے ہیں جو پروسیسنگ کے متعدد مراحل سے گزرتے ہیں جن میں اکثر صنعتی طریقوں کا استعمال اور مختلف اجزاء جیسے پریزرویٹوز،، رنگ، ایملسیفائر اور ذائقے شامل ہوتے ہیں۔ ان کھانوں میں چینی، نمک یا ٹرانس فیٹس کی مقدار ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ الٹرا پراسیسڈ فوڈز کے استعمال میں کمی کے لیے دنیا کے بہت سے ممالک نے ان پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگوائے جن سے لوگوں میں صحت مند خوراک کے استعمال کے رحجان میں اضافہ ہوا۔ حکومت پاکستان کو بھی لوگوں کی صحت کو اپنی اولین ترجیع بناتے ہوئے الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانے چاہیے۔
ان خدشات کا اظہار پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) اور وزارتِ صحت کے تعاون سے منعقدہ نیشنل ڈائیلاگ میں کیا گیا۔ وزارت کے دفتر میں منعقدہ اس تقریب کی صدارت وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرتھ نے کی اور اس میں ماہرین صحت، وزارت کے حکام، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرتھ نے بڑھتے ہوئے این سی ڈی کے بوجھ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کی فوری اطلاق کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پناہ کے مشکور ہیں کہ انہوں نے صحت کے ایک اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کی ہے۔ میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ صحت کی وزارت اس اہم انسانی مسئلے سے نمبٹنے کے لیے پناہ کے ساتھ ہے۔ ”
پناہ کے صدر میجر جنرل (ر) مسعود الرحمان کیانی نے غیر متعدی امراض میں ہونے والے اضافے میں غیر صحت مند خوراک بالخصوص الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے مضر اثرات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ ”حکومت کو غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے فیصلہ کن پالیسی اقدامات کرنے ہوں گے۔ جس سے لوگوں کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت صحت نے ماضی میں بھی پناہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اب بھی وہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک لیبلز لگانے کی پروپوزل وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بھجوائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پناہ اس پروپوزل کی تیاری میں وزارت صحت کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
منور حسین، کنٹری کوآرڈینیٹر برائے گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) نے الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کے معاشی اور صحت پر ہونے والے اخراجات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے مضر صحت خوراک کے استعمال کو کم کرنے کے لیے جن پالیسیی آپشنز پر کام کیا ہے ان میں ان پر ٹیکسوں میں اضافہ، ان پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانا، ان کی مارکیٹنگ پر پابندی اور انہیں تعلیمی اداروں سے ہٹانا شامل ہیں۔ آج ہم فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز کے حوالے سے بات کریں گے۔ دنیا کے بہت ممالک نے ان مضر صحت کھانوں پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگوائے جن سے لوگوں کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں مدد ملی اور بیماریوں میں کمی ہوئی۔
پناہ کے جنرل سکریٹری ثناء اللہ گھمن نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کارپوریٹ مفادات کی بجائے عوامی صحت کو ترجیع دیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان پر زور دیا کے دنیا کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہمیں بھی الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مضر صحت خوراک بنانے والی صعنت پالیسی سازوں کی گمراہ کرتی ہے اور غلط اعدادوشمار کے زریعے اپنی مصنوعات کو صحت مند ثابت کرتی ہے۔ پناہ وزارت صحت کی شکر گزار ہے کہ انہوں نے ماضی میں بھی پناہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور آئندہ بھی ہم درخواست کرنے ہیں کہ پناہ اور وزارت صحت مل کر لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ ڈائیلاگ صحت عامہ کے تحفظ اور پاکستان میں این سی ڈی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز اور دیگر پالیسی اقدامات اُٹھانے کے متفقہ مطالبہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔