راولپنڈی کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) بابر سرفراز نے کہا ہے کہ 24 نومبر کو پی ٹی آئی کے ہزاروں مظاہرین راولپنڈی کے ضلع اٹک میں داخل ہوئے، پولیس کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا گیا تاہم مظاہرین نے پولیس پر براہ راست فائرنگ کی، اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا، مظاہرین میں شامل تربیت یافتہ افراد نے مہارت سے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔
ڈی پی او اٹک کے ہمراہ راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بابر سرفراز نے کہا کہ ’راولپنڈی ڈویژن میں کسی ایک بھی سویلین کے زخمی ہونے کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، مظاہرین کے تشدد اور فائرنگ کے نتیجے میں ایس ایس پی، ڈی ایس پیز، انسپکٹرز سمیت 170 پولیس افسران و اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے 2 کو گولیاں لگیں، زیر علاج 25 اہلکاروں کی حالت نازک ہے، پولیس کی 11 گاڑیوں کو آگ لگائی گئی جبکہ کئی گاڑیاں توڑ پھوڑ کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے سلسلے میں 32 مقدمات درج کیے ہیں اور اس میں اب تک پولیس نے 1151 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے، ان ملزمان کا جب ڈیٹا چیک کروایا گیا تو انکشاف ہوا کہ اس میں 64 افغان شہری بھی شامل ہیں جن میں 4 کے رجسٹریشن کارڈز بھی بنے ہوئے ہیں جبکہ دیگر غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے اب تک راولپنڈی پولیس کے 262 ملازمین زخمی ہوچکے ہیں، 24 نومبر کے بعد پولیس کو مجبوراً راستے بند کرنے پڑے جس سے عوام کو تکلیف ہوئی، ہم اس پر معذرت خواہ ہیں لیکن یہ عوام کی سیکیورٹی کے لیے ضروری تھا۔
پریس کانفرنس کے دوران سی پی او راولپنڈی سید خالد ہمدانی نے بتایا کہ 24 نومبر کو سی پیک کے روٹ سے آنے والے قافلے کو پولیس نے انگیج کیا تو مظاہرین مشتعل ہوگئے اور پولیس کی نفری پر گاڑیاں چڑھانے کی کوشش کی، سیدھی فائرنگ کی گئی، اس دوران ہمارا ایک اہلکار مبشر شہید ہوا جبکہ 24 زخمی ہوئے، اس کے باوجود تحمل کا مطاہرہ کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ مظاہرین میں سے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا، اس کے بعد پولیس پیچھے ہٹ گئی تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے شرکا کی جانب سے اعلان کیا جارہا تھا کہ ہم اڈیالہ جیل جائیں گے، تاہم پولیس نے حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے مارچ کے شرکا کو وہاں جانے سے روکے رکھا، پرتشدد واقعات کے بعد گرفتار ملزمان سے بڑی تعداد میں آتشیں اسلحہ برآمد کیا گیا۔
ڈی پی او اٹک سردار غیاث گل خان نے پریس کانفرنس میں شریک صحافیوں کو بتایا کہ اٹک میں مظاہرین سے پولیس کا پہلی بار آمنا سامنا ہوا، 24 گھنٹے تک انہیں انگیج رکھا گیا، پتھر گڑھ پہاڑی کے مقام پر مظاہرین کے’عسکری ونگ’ کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں اہلکار واجد علی کو ہاتھ میں لگنے والی گولی گردن میں پیوست ہوگئی، زخمی اہلکار اس وقت آئی سی یو میں زیر علاج ہے، انہوں نے زخمی اہلکار کی تصاویر بھی میڈیا کو دکھائیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مظاہرین کے آتشیں اسلحہ سے چلائی گئی گولی سرگودھا پولیس کے اہلکار کی ٹانگ میں لگی اور وہ بھی زیر علاج ہے، ہمارے 170 جوان زخمی ہوئے لیکن مظاہرین میں سے ایک بھی شخص زخمی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پولیس ’ریت کی دیوار‘ ثابت ہوئی، جی بالکل ایسا ہی ہوا لیکن ہم نے یہ پسپائی کسی سانحے سے بچنے کے لیے اختیار کی، اب ملزمان کی شناخت کرکے گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور قانون کے مطابق سخت ایکشن لیا جائے گا۔