قومی ادارہ صحت میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے واک کا انعقاد

قومی ادارہ صحت میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے واک کا انعقاد

 پاکستان میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے دوسرا قومی ایکشن پلان تیار کر لیا گیا ہے جو جلد ہی حکومت کی منظوری کے بعد نافذ کیا جائے گا۔

اس بات کا انکشاف قومی ادارہ صحت اسلام آباد کے حکام نے پیر کے روز اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کے حوالے سے منعقدہ واک سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

واک کی شرکا سے خطاب کرتے ہوئے قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد سلمان نے کہا کہ پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے نیا قومی منصوبہ صوبائی حکومتوں اور قومی و بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے نافذ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کہ حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے واک کا اہتمام این آئی ایچ نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)، دی فلیمنگ فنڈ، گیٹس فارما اور دیگر شراکت داروں کے تعاون سے کیا ہے اور اس واک کے ذریعے لوگوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اینٹی بائوٹک ادویات کے بیجا استعمال سے گریز کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پورے ہفتے میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جائیں گی جن کا مقصد اے ایم آر کے خطرات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہترین طریقے اپنانا ہے۔

این آئی ایچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس یا جرثوموں میں ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بیکٹیریا، وائرس، فنگس، اور دیگر خرد بینی اجسام ان ادویات کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتے ہیں جو انہیں ختم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں علاج مشکل ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماریوں کا پھیلاؤ، شدید طبی مسائل، اور اموات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وسیع پیمانے پر اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے باعث نہ صرف کمیونٹی میں انفیکشنز بلکہ اسپتالوں میں خون میں پھیلنے والے انفیکشنز کا علاج بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسپتالوں میں لاحق ہونے والی متعدی بیماریوں کے علاج میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

اس موقع پر حکام اور ماہرین نے عوام، طبی عملے اور اداروں سے اپیل کی کہ وہ مشترکہ طور پر اس خطرے کا مقابلہ کریں اور اینٹی بائیوٹک کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں۔

صحت کے ماہرین پر زور دیا گیا کہ وہ اینٹی بائیوٹک صرف انتہائی ضرورت کے وقت تجویز کریں۔ اسی طرح، مویشیوں اور زرعی شعبوں میں اینٹی بائیوٹک کے استعمال کو بھی سختی سے کنٹرول کرنے کی سفارش کی گئی۔

عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں قائم مقام نمائندے ڈاکٹر زین نے خبردار کیا کہ اگر AMR کے مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک ہر منٹ میں تین افراد اس کے نتیجے میں موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔

انہوں نے وفاقی و صوبائی محکموں، ریگولیٹرز، صحت کے ماہرین اور تعلیمی اداروں پر زور دیا کہ وہ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) اسلام آباد کی انفیکشس ڈیزیزز کی سربراہ پروفیسر نسیم اختر نے کہا کہ اسپتالوں میں پیدا ہونے والی اینٹی بائیوٹک مزاحم بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں، جس کے لیے مریضوں اور ڈاکٹروں میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے۔

قومی ادارہ صحت میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر عمیرہ نصیر نے اس موقع پر بتایا کہ اس سال کا تھیم “Educate. Advocate. Act now” رکھا گیا ہے، جس کا مقصد اس مسئلے کے حل کے لیے آگاہی پھیلانا اور عملی اقدامات کو فروغ دینا ہے۔

گیٹس فارما کے پبلک ہیلتھ ریسرچ لیڈ جعفر بن باقر نے بتایا کہ ان کا ادارہ NIH اور وزارت صحت کے ساتھ مل کر AMR سے متعلق آگاہی پیدا کرنے اور صلاحیت بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

اس موقع پر اسکول کے بچوں کے درمیان پوسٹر مقابلہ بھی منعقد کیا گیا، جس میں بچوں نے AMR کے موضوع پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ بہترین پوسٹرز بنانے والے بچوں کو انعامات دیے گئے۔ NIH اور دیگر شراکت داروں کی جانب سے انعامات دیے گئے۔ (اختتام)

-- مزید آگے پہنچایے --