گانسو اکیڈمی برائے زرعی سائنس کے ژانگ یے پانی کی بچت کے زرعی اسٹیشن میں پاکستانی شہر بہاولپورکے ڈاکٹر محمد علی رضا نے ڈرپ آبپاشی کی مدد سے اناج اور سویابین کی فصلوں کے درمیان فصل کی بوائی مکمل کرلی۔علی کا کہنا ہے کہ ڈرپ آبپاشی ٹیکنالوجی مئوثر اور سستی ہے۔ یہ ایک نئی شاندار ٹیکنالوجی ہے جو چینی ٹیم نے مجھے سکھائی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سے پاکستان میں فصلوں کی پیداوار بڑھ سکتی ہے اور میرے آبائی شہر میں پانی کی قلت کا مسئلہ بھی حل کرسکتی ہے۔
زرعی ٹیکنالوجی میں مسلسل اختراع سے چینی صوبہ گانسو نے قابل کاشت زمین کے معاملات اور پانی کی قلت پر قابوپا لیا ہے۔ صوبے میں زراعت کے فروغ نے علی جیسے بین الاقوامی محققین کی ایک بڑی تعداد کو ٹیکنالوجی کو سیکھنے اور اختراع کے لئے یہاں آنے پر راغب کیا۔
علی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کےلئے صوبہ سیچھوان گئے تھے۔ اپنے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے دوران انہوں نے اپنے آبائی شہر میں مکئی ۔ سویابین کی فصلوں کے درمیان فصل کی بوائی کا تجربہ کیا جو مقامی سطح پر کافی مقبول ہوا ۔ یہ ٹیکنالوجی انہوں نے چین میں سیکھی تھی۔ پاکستان میں ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی ان کوششوں کو کسان کنونشن 2021 میں سابق وزیراعظم نے بھی سراہا تھا۔علی کا کہنا ہے کہ وہ چین سے ٹیکنالوجی کو پاکستان کے کھیتوں تک پہنچانا اعزاز سمجھتے ہیں اور اس پر انہیں فخر ہے۔
علی کو 2022 میں حکومت پاکستان نے زرعی ٹیکنالوجی تعاون میں فروغ کے لئے دوبارہ چین بھیجا ۔
علی کے نقطہ نگاہ سے پاکستان اور چین جیسے بڑی آبادی اور کم قابل کاشت رقبہ کے حامل ممالک میں بیک وقت ایک ہی جگہ سے مختلف فصلوں کی پیداوار کی ٹیکنالوجی خاص کر اہمیت رکھتی ہے۔اگر ہمارے کسان بڑے پیمانے پر بیک وقت ایک ہی جگہ سے مختلف فصلوں کی پیداوار کی ٹیکنالوجی کو اپناتے ہیں تو سویابین پر مبنی بیک وقت ایک ہی جگہ سے مختلف فصلوں کی پیداوار کا نظام پاکستان میں سویابین کی درآمدات کم کرسکتا ہے جس پر اس وقت 3 ارب ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔چین اور پاکستان میں مکئی، گندم، چاول اور کپاس جسے بڑی فصلوں کی کاشت کا انداز تقریباً ایک جیسا ہے۔ اس عمل نے علی کو تیزی اور مئوثر طریقے سے زرعی ٹیکنالوجی کے اطلاق پر قائل کیا۔
جس چیز نے علی کو حقیقتاً سب سے زیادہ متاثر کیا وہ چین کی زرعی جدیدیت ہے ۔ چینی کسانوں کے پاس زرعی کاموں کے لئے مشینری موجود ہے جبکہ پاکستان میں بہت سے کسان اب بھی روایتی طر یقوں سے بوائی ، کٹائی اور اسپرے پر انحصار کرتے ہیں۔
چین ۔ پاکستان دوستی سے لطف اندوز ہونے والے علی تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” پر مشترکہ کام کے تناظر میں چین پاکستان کو مزید زرعی مشینری اور سازوسامان برآمد کرسکتا ہے۔ مکئی، آلو اور سویا بین جیسی اعلیٰ پیداواری فصلوں کی اقسام مہیا کرسکتا ہے اور پاکستانی سائنسی محققین کو مناسب تربیت دے سکتا ہے۔علی کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ نئی چیزیں سیکھ کر اپنے آبائی شہرمیں بتدریج نئی ٹیکنالوجیز اور فصلیں متعارف کرانے سے ملک کو زراعت میں جدیدیت سے مزید فوائد فراہم کر سکتے ہیں۔