امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم نے پاکستان کی جمہوریت پر شب خون مارا ہے اور ایسےخوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے جیسے کوئی کامیابی حاصل کی ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بائیکاٹ کرکے اچھا کیا ہے لیکن بہت اچھا ہوتا اگر وہ اس پورے پراسس کا حصہ نہ بنتے، اگر وہ ایسا کرتے تو حکومت کو اس طرح اپنے آپ کو پیش کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
انہوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے نے آئین کی روح کو متاثر کیا ہے۔امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ ہم مشاورت کر رہے ہیں کہ آئینی ترمیم کے معاملے میں سپریم کورٹ میں کس طرح آواز اٹھا سکتے ہیں، 1973کا آئین انتہائی مشکل حالات میں بنا تھا، آئینی ترمیم کا مسئلہ کسی پارٹی کا نہیں بلکہ ملک و قوم کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہےکہ عدالتوں میں ویسے ہی انصاف نہیں مل رہا ہے لیکن اب مزید انصاف کو عدالتوں میں یرغمال بنا لیا جائے گا۔حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دوسرے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اس معاملے میں لوگوں کو مصروف کردیا ہے، تاکہ اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں آدھےسے زیادہ وہ لوگ ہیں جو جیتے ہی نہیں ہیں،کل پی ڈی ایم تھری مکمل طور پر فعال نظر آرہی تھی، مجھے نہیں معلوم کہ نوازشریف کیوں افسردہ نظر آتے ہیں، حکومت جو کام کرتی ہے وہ ان کے گلے پڑتا ہے۔آئینی ترمیم سے متعلق حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ پر قبضہ جمانے کے لیے یہ کارروائی کافی دن سے جاری تھی، پارلیمانی کمیٹی اور وزیراعظم کے ہاتھ میں ججز کے تقررکا معاملہ دینا افسوسناک ہے۔
واضح رہے کہ 20 اکتوبر کو سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد 21 اکتوبر کی علی الصبح قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے۔
آئینی پیکج سے مشہور 26ویں آئینی ترمیمی بل دراصل قانون سازی ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ کے ازخود(سوموٹو) اختیارات لینا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنا اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینا ہے۔گزشتہ ماہ سے حکمران اتحاد آئینی ترامیم کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے پارلیمان میں سیاسی جماعتوں سے بھرپور لابنگ کرنے میں مصروف تھا جہاں ان ترامیم میں بنیادی توجہ عدلیہ پر مرکوز تھی۔