جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق رائے اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیاجائے۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے آج مجوزہ آئینی ترامیم سے متعلق مسودے کی کاپیاں تقسیم کیں، ہمارے وکلا مسودے کی کاپیاں دیکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے دیگر اتحادیوں کو بھی مسودے پر اعتماد میں لیاجائےگا، مسودے پر اتفاق رائے اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ لچک کا مظاہرہ کیاجائے، اب تک ہم نے ووٹ نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ترامیم کا حکومتی تصور ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مسودے سے قابل اعتراض مواد کو صاف کیاجائے، ہم اپنی تجاویز لا رہے ہیں، ان کو آمادہ کر رہے ہیں، جب ہماری تجاویز پر عمل ہوگا تو ہم اس قابل ہوں گے کہ ووٹ دیں۔ان کا کہنا تھا کہ ترامیم ہمارے نظریے کے مطابق نہیں ہوتیں تو پھر یہ کہنا کہ ہمارے نمبر پورے ہیں، نمبر پورے ہوجائیں گے، یہ باتیں سیاسی بد اخلاقی بھی ہے، اس سے آئین کو متنازع بنانے کی بھی ایک بنیاد پڑ جائے گی، کیونہ ہم اتفاق رائے سے چلیں، اس کا ہر سمت سے خیرمقدم ہونا چاہیے۔
مولانافضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم آج حکومتی مسودے پر غور کا آغاز کر رہے ہیں، 19ویں ترمیم ختم کرکے 18ویں ترمیم کو بحال کیاجائے، اپوزیشن جماعتوں کےساتھ اتفاق رائے کی طرف جانا چاہتےہیں۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہم نے 18ویں ترمیم پر بھی اسی طرح اتفاق کیا تھا، امید ہے کہ حکومت ہماری تجاویز پر راضی ہوجائےگی، 19ویں ترمیم کے خامتمے سے ججوں کی تقرری میں پارلیمان کا کردار بڑھےگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو 19 ویں آئینی ترمیم ختم کرنے کی تجویز دی ہے، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی متفقہ مسودے کی طرف بڑھیں گی۔مولانافضل الرحمان نے کہا کہ عدلیہ کو سیاست میں تقسیم نہ کریں، جج، جج ہوتا ہے، اس کو جج ہی رہنےدیں، جج بھی اپنےرویےسےعوام کومطمئین کریں کہ وہ غیر جانبدار ہو کر آئین اور قانون کے حوالے سے فیصلےدیں گے۔