مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس کے عہدے کے لیے حمایت کرنے پر ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے فیض حمید کو چیف بنانا تھا اور اب آپ منصور علی شاہ کو چیف بنانا چاہتے ہیں، آپ اپنی پسندیدگی کا داغ جسٹس منصور کے ماتھے پر لگا کر انہیں کیوں فیض حمید بنانا چاہتے ہیں۔
سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ایک جامع عمل ہے اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کسی سقم یا غلطی کو کون درست کرے گا؟ میرے سوال پر سیاسی تفرقہ بازی کے بغیر غور ہونا چاہیے، مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے سے کئی سوال پیدا ہوئے ہیں اور عدالتی فیصلے سے معاملہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہو گیا ہے جسے سلجھانا ناممکن ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں لیکن آئین کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں سکتے، آج یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا عدالت کا کوئی بینچ بھی غلطی کر سکتا ہے یا نہیں کر سکتا، کیا یہ عدالتوں کے ججز ہم پارلیمنٹیرینز کی طرح انسانوں میں سے ہیں، غلطی کر سکتے ہیں یا یہ نعوذ بااللہ پیغمبروں کا قبیلہ ہے جس سے غلطی کا ارتکاب نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہو سکتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں ایک سے زائد بار ہوا ہے اور بار بار آئین کو توڑا گیا ہے اور بار بار 2017 کے الیکشن ایکٹ کو توڑا گیا ہے، ہم کوئی غلطی کرتے ہیں تو عدلیہ اس کی اصلاح کر دیتی ہیں لیکن جب عدلیہ کسی غلطی کی مرتکب ہو جائے اور آئین سے براہ راست متصادم کوئی فیصلہ ہو جائے تو آج یہ فیصلہ ہوجانا چاہیے کہ کوئی اگر آئین سے متصادم کوئی فیصلہ کرتی ہے تو کون ٹھیک کرے گا۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست تھی لیکن فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آگیا، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست کو پشاور ہائی کورٹ نے 5-0 سے مسترد کیا کیونکہ آئین کے مطابق آزاد رکن 3دن میں کسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، اس کے بعد آئین پانچ سال تک اس پنجرے کو بند رکھتا ہے لیکن آپ آئینی شرط توڑ کر پنجرہ کھول دیتے ہیں اور ان پنچھیوں سے کہتے ہیں کہ اڑ جاؤ اور اڑ کر کہیں نہیں جانا بلکہ ایک خاص آشیانے کی طرف جانا ہے، انہیں پی ٹی آئی میں جانے کا کہتے ہیں، یہ کیا ہے؟، کون سا آئین اور ضابطہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ سے متفقہ فیصلے کے بعد سپریم کورٹ جاتے ہیں تو عدالت عظمیٰ بھی کہتی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو یہ نشستیں نہیں دی جا سکتی ہیں لیکن یہاں سے وہ نظریہ ضرورت، نظریہ سہولت اور مکمل انصاف کا نظریہ پھوٹتا ہے جس کی ہمیں کوئی منطق نظر نہیں آتی ہے اور اس میں کہا جاتا ہے کہ مکمل انصاف کے تحت ہم یہ نشستیں اس جماعت کو دے رہے ہیں جو نہ اسپیکر کے پاس گئی کہ نہ اسپیکر نہ الیکشن کمیشن کے پاس گئی کہ ہمیں یہ نشستیں چاہئیں، نہ ہائی کورٹ کے پاس گئی اور نہ ہی سپریم کورٹ کے پاس گئی۔
مسلم لیگ لیگ(ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ آج تک سنی اتحاد کونسل میں جانے والے پی ٹی آئی کے اراکین میں سے کسی ایک نے کسی فورم پر نہیں کہا کہ ہم اپنی پارٹی بدلنا چاہتے ہیں، میں مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھتا ہوں تو آپ مجھے کس قانون کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ آپ مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم میں چلے جائیں، اس طرح کے بے شمار عجوبے اس فیصلے میں بھرے پڑے ہیں جو آئین سے براہ راست متصادم ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ماضی گواہ ہے کہ ماضی میں چار مارشل لا لگے لیکن عدلیہ کبھی کسی بھی مارشل لا کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی لیکن پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم پر شور برپا ہے اور اگر ایک آمر جا کر کہتا ہے کہ میری توثیق کرو تو اس کی توثیق بھی کی جاتی ہے اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ جتنی چاہے آئین میں ترمیم کر لو، یہ سب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جب آئین کی پاسداری نہ کریں تو آپ ہماری گرفت کر لیتے ہیں لیکن آپ جب آئین کی پاسداری نہ کریں تو بتائیں ہم کہاں جائیں، جب پارلیمنٹ کے سامنے 2راستے ہوں کہ آئین کی پیروی کریں یا غیر آئینی عدالتی فیصلے کی پیروی کریں تو ہم کیا کریں، ہمارے لیے مسئلہ کھڑا کردیا ہے کہ ہم کدھر جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل239 کے تحت پارلیمنٹ کے آئین سازی کے اختیار پر کوئی حد نہیں لگائی جاسکتی لیکن عدالت کی جانب سے حدود تجاوز ہونے کی وجہ سے آئین کی کئی شقیں مفلوج ہوگئی ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر نے کہا کہ ہم اپنی حدود کے اندر رہنا چاہتے ہیں، ہمیں اپنی حدود کے اندر رہنے دیں لیکن ایک غیرآئینی یا آئین سے متصادم فیصلہ دینے کے بعد ہماری پیٹھ پر چابک نہ ماریں کہ آپ یہ فیصلہ کیوں نہیں مانتے، ہم نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے اور ہم آئین بنانے والے لوگ ہیں، آپ آئین نہیں بناتے ہم بناتے ہیں اور ہم آپ کا احترام کرتے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر نے کہا کہ خان صاحب کا بیان آیا ہے کہ ہم جسٹس منصور علی شاہ کو سپورٹ کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم انہیں اس طرح کے بیانات دینے چاہئیں یا نہیں، یہ کہنا کہ فلاں کی آمریت بھی اس جمہوریت سے اچھی تھی، کونسی جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج آپ پر بنے فوجداری کیسز کے سوا کونسے سیاسی قیدی ہیں، آپ کے دور میں کونسا سا ایسا شخص یا نامور سیاستدان تھا جو جیل سے باہر تھا، میں جب 2021 میں سینیٹ میں آیا تو پتا چلا کہ ایک شخص ایک کمرے میں بیٹھ کر پارلیمنٹ کو چلاتا ہے، آپ کا دور تو ایسا تھا اور آپ ہمیں درس دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ منصور علی شاہ ایک معزز جج ہیں، ان کا بہت اچھا ٹریک ریکارڈ ہے اور ہم سب ان کی تکریم کرتے ہیں اور ہم سب چاہتے ہیں کہ جب ان کو موقع ملے تو شاندار روایات قائم کریں لیکن اس شخص کو اپنی پسندیدگی کا داغ اس کے ماتھے پر لگا کر اس کے مستقبل کو خراب کرتے ہو، آپ کیوں اسے فیض حمید بنانا چاہتے ہیں، اسے فیض حمید کی سطح پر نہ گھسیٹیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے فیض حمید کو چیف بنانا تھا وہ بنا یا نہیں بنا لیکن اب آپ منصور علی شاہ کو چیف بنانا چاہتے ہیں، آپ کے کہنے سے نہیں بنیں گے، وہ اپنے میرٹ اور استحقاق پر بنیں گے لہٰذا اس طرح کی باتیں نہ کریں۔