اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، جو پاکستان کے بڑے دشمن کی سرپرستی کے ساتھ ملک میں دہشت گرد حملےکر رہی ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی تیزی سے ایک ایسے دہشت گرد گروہ کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کے سائے تلے دیگر گروہ جمع ہو رہے ہیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی ایک الگ گروپ ہے لیکن افغان طالبان کے ساتھ منسلک ہے، اس نے نومبر 2022 میں اس وقت کی پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ توڑنے کے بعد سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے منیر اکرم نے دنیا کو افغانستان میں اور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے سنگین خطرے سے خبردار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی 34 ویں رپورٹ نے افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی کے پریشان کن پہلو پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی علاقائی عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستانی سفیر منیر اکرم نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی تیزی سے ایک ایسے دہشت گرد گروہ کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کے سائے تلے دیگر گروہ جمع ہو رہے ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ القاعدہ کے ساتھ اس کی طویل وابستگی کو دیکھتے ہوئے، کالعدم ٹی ٹی پی کو القاعدہ کے علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے مقاصد کی قیادت سنبھالنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ مستقبل قریب میں ٹی ٹی پی سے درپیش خطرات کے بارے میں ابھی سے فکر کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے خطر ے کو ختم کرنے کی غرض سے علاقائی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے قومی سطح پر اقدامات کرے گا۔
پاکستانی سفیر نے افغانستان میں امن اور استحکام کی حمایت کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیاجو کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کی سیاسی شمولیت کے فروغ کی مشترکہ خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔انہوں نے کہا پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ ایسی شمولیت افغانستان میں استحکام اور معمول کے حالات کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
انہوں نے افغان عبوری حکومت کی جانب سے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت نے نہ صرف خواتین اور لڑکیوں سے متعلق اپنے وعدوں سے انحراف کیا ہے بلکہ ان کی آواز کو دبانے کے مقصد سے نئی ہدایات جاری کر کے صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔
سفیر منیراکرم نے کہا کہ پاکستان ان اقدامات کی مذمت کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات ہمارے روشن خیال مذہب کے خلاف ہیں، جو مردوں اور عورتوں دونوں کے مساوی حقوق کو برقرار رکھنے والا اولین مذہب ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ اگرچہ ہم افغان طالبان کی حکومت کے ساتھ تعمیری روابط کے لیے پرعزم ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی حالات متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
انہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے 3 سال بعد افغانستان میں جاری انسانی بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2 کروڑ 37 لاکھ افغانوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی شرائط کے ان کی مدد کرے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان ہیومینیٹیرین نیڈز اینڈ رسپانس پلان جس کے لیے 3.06 ارب ڈالر کی امداد درکار ہے، کو مطلوبہ فنڈز کا 25 فیصد سے بھی کم موصول ہوا ہے۔سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اس حوالہ سے فنڈ ز کی فراہمی کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے فنڈنگ کے تمام ممکنہ ذرائع کو متحرک کیا جائے۔انہوں نے افغانستان کی معاشی بحالی کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا اور افغان بینکاری نظام کی بحالی، لیکویڈیٹی بحران حل کرنے اور افغانستان کے قومی ذخائر بحال کرنے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کی فوری ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارتی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے پرعزم ہے اور علاقائی انفراسٹرکچر اور کنیکٹیویٹی کے منصوبوں کو نافذ کرنے میں کلیدی شراکت دار ہے جس سے خطے میں اقتصادی استحکام اور ترقی میں اضافہ ہوگا۔پاکستانی سفیر نے اے آئی جی پر زور دیا کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور متنبہ کیا کہ اندرونی، علاقائی اور عالمی عدم استحکام کو فروغ دینے والی پالیسیوں پر عملدرآمد کو روکنا ضروری ہے۔