حکومتی وفود کی رات گئے آنیاں جانیاں، رابطے اور جوڑ توڑ سب ناکام ہوگئے اور آئینی ترامیم غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کردی گئیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ آئینی ترامیم آنے میں ہفتہ دس دن بھی لگ سکتے ہیں، آج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو جائیں گے، پارلیمنٹ سے ترمیم منظور نہ ہونا حکومت کی ناکامی نہیں، ہمارے نمبرز پورے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم آنے میں ہفتہ دس دن بھی لگ سکتے ہیں، ترامیم منظور ہوجائیں گی، مجھے اس میں کوئی بڑا رخنہ نظر نہیں آتا اور اگر ترامیم نہیں بھی آئیں تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ مسئلہ نمبر گیم کا نہیں ہے بلکہ مسودے میں کچھ نکات پر اتفاق کا ہے جو کہ ہر فریق کا حق ہے جب کہ مسودہ کبھی بھی سامنے نہیں آتا بلکہ پہلے یہ ایوان میں پیش ہوتا ہے۔ لیگی رہنما نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے وقت مانگا ہے، مولانا بہت ساری چیزوں پر مطمئن تھے، مولانا کو ترامیم پر اتفاق ہے مگر بعض جزیات کی تفصیل کے مطالعے کے لیے وقت درکار ہے۔ واضح رہے کل ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئینی ترامیم کو مسودہ پیش کیا جانا تھا مگر رات گئے تک حکومت کو ترامیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ اکثریت نہ ملنے پر اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ملتوی کرکے آج پھر اجلاس طلب گئے۔
دستاویز کے مطابق مجوزہ ترمیمی بل میں آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف جانے پر ووٹ شمار کرنے کی ترمیم کی تجویز بھی ہے۔آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز اور آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کی تجویز شامل ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کیلئے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو دے گی۔
دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، ججز کی تقرری کیلئے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہو گی،کمیٹی ارکان کا انتخاب اسپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے کریں گے، کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیراعظم کو دے گی۔مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی، سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کیلئے جج تعینات ہو گا۔بل میں ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے اور ہائی کورٹ ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔