پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ “خطرناک سفر: پاکستان میں انسانی اسمگلنگ” کے ذریعے بے ضابطہ مہاجرین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب فوری توجہ دلائی ہے۔ یہ رپورٹ ممتاز فخرالدین جی. ابراہیم فیلوشپ کے تحت تیار کی گئی ہے۔
رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ کو محض ایک بین الاقوامی جرم کے بجائے انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی کے طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کو تشدد، بھتہ خوری، زیادتی، بلیک میلنگ، قید اور یہاں تک کہ موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے ذریعے بے ضابطہ ہجرت عموماً معاشی مجبوری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تاہم یہ عمومی تاثر کہ مہاجرین غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کرنے کا انتخاب خود کرتے ہیں اور یوں سفر کی مشکلات اور استحصال کو قبول کرلیتے ہیں، کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ کو دیگر استحصالی سرگرمیوں جیسے کہ انسانی ٹریفکنگ جتنی توجہ نہیں ملی۔
رپورٹ میں ایک ایسے بے ضابطہ مہاجر کے سفر کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے، جس نے پنجاب سے ترکی تک (بلوچستان اور ایران کے ذریعے زمینی راستے سے) خطرناک سفر کرنے کے لیے ایک انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے رجوع کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے بے ضابطہ ہجرت کی بنیادی وجوہات بیروزگاری، مواقع کی کمی، غربت، عدم تحفظ اور تنازعات ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے ایجنٹ نوجوان اور کمزور افراد کو نشانہ بنانے اور انہیں مغربی ممالک کے سفر کی ترغیب دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کی منظم کارروائیاں مجرمانہ اداروں سے ملتی جلتی ہیں۔ یہ نیٹ ورک خود کو برقرار رکھتے ہیں اور بہت سے سابق مہاجرین خود انسانی اسمگلر بن جاتے ہیں۔
اگرچہ”مہاجرین کی اسمگلنگ کی ممانعت کا ایکٹ 2018″ کے تحت ایف آئی اے کو انسانی اسمگلنگ کی تحقیقات اور اس کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے، لیکن ایچ آر سی پی کی رپورٹ دلیل پیش کرتی ہے کہ اس پیمانے پر بین الاقوامی کارروائیاں ایف آئی اے کے علم اور ممکنہ ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔
رپورٹ کے نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو زمینی، بحری اور فضائی راستوں سے مہاجرین کی اسمگلنگ کے خلاف پروٹوکول کی توثیق اور اس پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔ تاہم، مہاجرین جن ممالک کا سفر کرتے ہیں، ان پر بھی بے ضابطہ مہاجرین کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ “مہاجرین کی اسمگلنگ کی ممانعت کا ایکٹ 2018” میں ترمیم کر کے اسے انسانی حقوق کے لحاظ سے مؤثر بنایا جائے تاکہ متاثرین کو سفر سے پہلے اور سفر کے دوران پیش آنے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔
ایف آئی اے میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ وہ 2018 کے ایکٹ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکے، اور ایف آئی اے کے اہلکاروں پر اضافی نگرانی کی جائے تاکہ کرپشن کو روکا جا سکے، جو انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو بے خوفی سے کام کرنے کا موقع دیتی ہے۔ طویل مدت میں، ریاست کو معاشی حالات کو بہتر بنانے اور بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی ہجرت کے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔