انٹرنیٹ سروسز کب تک سست روی کا شکار رہینگی، پی ٹی اے کا بیان آگیا

انٹرنیٹ سروسز کب تک سست روی کا شکار رہینگی، پی ٹی اے کا بیان آگیا

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز ’اکتوبر کے اوائل‘ تک سست رہنے کی توقع ہے کیوں کہ انٹرنیٹ میں سست روی کی وجہ بننے والی سب میرین کیبل کی مرمت اکتوبر تک کی جائے گی۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار میں کافی کمی دیکھی گئی ہے، خاص طور پر موبائل ڈیٹا استعمال کرنے والے صارفین کو واٹس ایپ کے ذریعے میڈیا اور آڈیو پیغامات بھیجنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جب کہ براڈ بینڈ پر بھی براؤزنگ انتہائی سست ہے۔

بزنس کمیونٹی اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پیز) نے الزام لگایا تھا کہ حکومت کی جانب سے ’فائر وال‘ سمیت انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کی کوششوں کی وجہ سے ڈیجیٹل سروسز میں سست روی ریکارڈ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں معاشی نقصان ہو رہا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر شزہ فاطمہ نے تصدیق کی تھی کہ حکومت سائبر سیکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے ’ویب مینجمنٹ سسٹم‘ کو اپ گریڈ کر رہی ہے، انہوں نے حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کو ’کنٹرول‘ کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

دوسری جانب پی ٹی اے نے انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سب میرین کیبل کی خرابی کو قرار دیا ہے، اور اس خدشے کو بھی مسترد کیا ہے کہ ریاست کی جانب سے فائر وال لگایا جارہا ہے۔پی ٹی اے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ انٹرنیٹ سست روی کی وجہ دو سب میرین کیبلز ہیں، جن میں سے ایک کی مرمت کا کام ابھی باقی ہے۔’ملک بھر میں جاری انٹرنیٹ کی سست روی بنیادی طور پر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنے والی 7 عالمی سب میرین کیبلز میں سے دو (ایس ایم ڈبلیو-4، اے اے ای-ون) میں خرابی کی وجہ سے ہے‘۔ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق ایس ایم ڈبلیو-4 سب میرین کیبل میں خرابی اکتوبر 2024 کے اوائل تک ٹھیک ہونے کا امکان ہے’۔

پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ سب میرین کیبل اے اے ای-ون کی مرمت کی گئی ہے جس سے انٹرنیٹ کی رفتار میں بہتری دیکھی جائے گی۔گزشتہ ہفتہ پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمٰن نے کہا تھا کہ سب میرین کیبل کو 27 اگست تک ٹھیک کر دیا جائے گا۔پی ٹی اے کے سربراہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا، جہاں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے انہیں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

-- مزید آگے پہنچایے --