رواں برس  15-6 سال کے بچوں کو سب سے زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا

رواں برس 15-6 سال کے بچوں کو سب سے زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا

ساحل سنہ 1996 سے بچوں کے تحفظ خاص کر بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے کام کر رہا ہے۔ ساحل کا مقصد ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینا ہے جہاں پر ہر بچہ کسی بھی قسم کے جسمانی و جنسی تشدد سے محفوظ محکم اور با حفاظت ہو اس کے علاوہ ساحل جنسی تشدد کا شکاربچوں کو مفت قانونی اور نفسیاتی مشاورت فراہم کرتا ہے۔ سال 2024 ( جنوری تا جون ) پاکستان کے چاروں صوبوں اسلام آباد ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور پر 1630واقعات رپورٹ ہوئے یہ واقعات 81 مختلف قومی اور علاقائی اخبارات کی جانچ پڑتال کے بعد سامنے آئے۔ بچوں پر تشدد کے واقعات کی تفصیل کے مطابق 862 جنسی تشدد کے واقعات اغواء کے 668 واقعات ، بچوں کی گمشدگی کے 82 واقعات اور کم عمری کی شادی کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے۔اس سال 48 واقعات میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ ویڈیو اور تصاویر بنانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

جنوری تا جون 2024 میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی شرح زیادہ رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق 59 فیصد لڑکیوں اور 41 فیصد لڑکوں کو جنسی تشدد کا شکار بنایا گیا۔اس سال کے اعداد و شمار کے مطابق 15-6 سال کے بچوں کو سب سے زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 15-6 سال کے 693 بچوں ، 5-0 سال کے 94 بچوں اور 18-16 سال کے 231 بچوں کو جنسی تشدد کا شکار بنایا گیا ۔ جبکہ 612 بچوں کے واقعات میں عمر کا اندارج نہیں تھا۔ششماہی اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے ساتھ ہونے والے کل واقعات میں 47 فیصد جاننے والے افراد جبکہ 18 فیصد واقعات میں انجان لوگ ملوث پائے گئے ۔

اس سال رپورٹ ہونے والے کل واقعات میں سے 78 فیصد واقعات پنجاب 11 فیصد سندھ – 6 فیصد اسلام آباد 3 فیصد خیبر پختونخواہ اور 2 فیصدواقعات بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے سامنے آئے۔ اس سال جنوری تا جون کل 1630 واقعات میں سے 44 فیصد شہری علاقوں سے جبکہ 56 فیصد دیہی علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔سال 2024 میں خواتین کے ساتھ ہونے والے تشدد کے واقعات کی بھی جانچ پڑتال کی ، جس کے مطابق خواتین کے ساتھ تشدد کے کل 1732 واقعات رپورٹ ہوئے ۔ جن میں مختلف اقسام کے واقعات جیسا کہ قتل، اغواء ، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، جسمانی تشدد، اور خودکشی کے واقعات شامل ہیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --