وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی قتل کا فتویٰ یا جان کا فتویٰ جاری کرے، ریاست کے اندر ریاست بنانے اور فتوے جاری کرنے کی روایت کی ہم سب کو مل کر مذمت کرنی چاہیے اور ریاست کو بھی اس معاملے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے بعد ملک میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور پاکستان کا سماجی چہرہ بہت حد تک تبدیل ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ ایک بڑا چیلنج دہشت گردی کے حوالے سے آیا، اس کے ساتھ ہی سماجی اور مذہبی حوالے سے عدم برداشت کے رویے آئےہمارے درمیان، انہوں نے ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست بنانے اور فتوے جاری کرنے کی روایت کی ہم سب کو مل کر مذمت کرنی چاہیے اور ریاست کو بھی اس معاملے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔وزیر قانون نے کہا کہ اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئیں کہ ایک گروہ نے اپنا قانون مسلط کرنے کی کوشش کی اور فتویٰ جاری کیا ہے، وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکلہ قابل دست اندازی پولیس جرم ہے، اس پر مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اس حوالے سے جلد آپ کو پیش رفت سے آگاہ کریں گے، اور اس معاملے میں گرفتاریاں بھی ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ اس پر ریاست کی زیرو ٹالیرنس ہوں گی، اس لیے کہ ہر چیز کی ایک حد ہے، ریاست انسانی حقوق یا اظہار رائے کی آزادی کے لبادے میں کسی کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ اس کے منہ میں جو آئے، وہ کہہ دے، جہاں پر قانون کی حد عبور ہوگی، اس کی خلاف ورزی ہوگی، جرم کا ارتکاب ہوگا یا جرم کا ارتکاب کرنے کی دھمکی یا کوشش ہوگی، ریاست اسے اپنی طاقت سے مسترد کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے لیکن ہمارے دین ہی ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ کون سے کام ریاست کے کرنے والے ہیں اور کون سے کام افراد کے کرنے والے ہیں، ہمیں اس سبق کو نہیں بھولنا چاہیے، کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ریاستی امور اپنے ہاتھ میں لے یا کسی کی جان و مال کے بارے میں فتوی جاری کرے۔وزیر قانون نے کہا کہ ہمیں اپنے نصاب میں بھی اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہم وہ نسل تیار کریں جو اس ملک کو واپس امن و آتشی کی ڈگر پر لے کر آئے اور ہمیں ان بدعتوں اور تفرقات سے نکالے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہر پاکستان کی حفاظت حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے، قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والا کوئی شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور نہ کرے، اس طرح کے حساس معاملات پر بات کرنا بہت جرات مندانہ بات ہوتی ہے، لیکن ہمیں اس خاموشی کو توڑنا ہے اور اب یہ بات سے آگے نکل کر عمل تک آچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان بڑے نیک نام جج ہیں، وہ بہت اصول پسند جج ہیں، وہ پاکستانی آئین، قانون اور شریعت کے مطابق فیصلے دیتے ہیں، ہم توقع رکھتے ہیں کہ تمام جج صاحبان کے فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہوں گے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی قتل کا فتویٰ یا جان کا فتویٰ جاری کرے۔وزیر قانون نے کہا کہ اس پر حکومت اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہے، ہم صوبائی حکومتوں سے بھی رابطے میں ہیں، میں سمجتا ہوں کہ یہ ایک پوری مہم ہے جسے ہمیں روکنا ہے، اس تکلیف دہ، اس تفرقے سے، اس مصیبت سے ملک کو نکالنا ہے۔