انتخابات میں خواتین کو جنرل نشست پر پانچ فیصد ٹکٹ نہ دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے سماعت 7 اگست تک ملتوی کردی۔ ممبر نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر ممبر کمیشن نے دریافت کیا کہ خواتین کو جنرل نشست پر 5 فیصد کا کوٹہ دیا تھا یا نہیں اس پر عملدرآمد رپورٹ پیش کریں، اگر خواتین کو کوٹہ نہیں دیا گیا تو کیوں نہیں دیا گیا؟ خواتین امیدواروں کو اکثر ٹکٹ ایسے حلقے سے دی جاتی ہے جہاں پارٹی کا ووٹ نہیں ہوتا، 10 جماعتوں نے خواتین کو 5 فیصد جنرل نشست پر کوٹہ دینے پر عملدرآمد نہیں کیا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اگر 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو نہیں دی جاتی تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ جنرل نشست پر 5 فیصد ٹکٹ خواتین امیدوار کو نہ دینے پر سیاسی جماعت کا انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا، ہمارے ریکارڈ کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل نے خواتین کو 3.84 فیصد ٹکٹ دی۔
اس موقع پر بی این پی مینگل کے وکیل نے 2 ہفتوں کی مہلت مانگ لی، تحریک لبیک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیا جائے، ساتھ ہی سلیمان خان قبائل موومنٹ نے بھی جواب جمع کرانے مزید وقت مانگ لیا۔جمعیت علمائے اسلام پاکستان نورانی کے وکیل نے کہا کہ میرے امیدواروں نے الیکشن لڑا نہیں ، کاغذات واپس لے لیے تھے، ہم پیپلز پارٹی کے حق میں دستبردار ہو ئے، ہمارے 14 امیدوار تھے جس میں ایک خاتون تھی ، تاہم سب نے کاغذات واپس لے لیے تھے۔
عدالت نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان نورانی کے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ اپنا تحریری بیان، بیان حلفی کے ساتھ جمع کرا دیں۔بعد ازاں پاکستان نظریاتی پارٹی کے وکیل نے بتایا کہ ہمارے 63 امیدوار تھے، پنجاب میں ہماری زیادہ امیدوار تھے جہاں ہم نے خواتین کو کوٹہ دیا، باقی صوبوں میں ہمارے دو تین امیدوار تھے جس میں کوٹہ بنتا نہیں تھا۔اس پر ممبر الیکشن کمیشن نے دریافت کیا کہ کیا خواتین کو پانچ فیصد جنرل نشست پر ٹکٹ کا کوٹہ دینے کا اطلاق سینیٹ پر بھی ہے؟ الیکشن ایکٹ میں خواتین کو پانچ فیصد جنرل نشست پر ٹکٹ کا کوٹہ دینے کے معاملے پر لفظ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں استعمال کیا گیا، اس معاملے پر بھی ہمیں تفصیل سے آگاہ کریں۔
جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام پاکستان امام نورانی ، پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان راہ حق ، جمیت علمائے اسلام (ایس) کی جانب سے کوئی کمیشن میں پیش نہ ہوا جس پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 اگست تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 6 فروری کو خواتین کو جنرل نشستوں پر 5 فیصد ٹکٹ نہ دینے پر عورت فاونڈیشن نے الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔عورت فاونڈیشن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، ٹی ایل پی اور ایم کیو ایم پاکستان خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے میں ناکام رہی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم، اے این پی اور ٹی ایل پی خواتین کو جنرل نشست پر 5 فیصد ٹکٹ دینے میں ناکام رہی جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) نے خواتین کو 5 فیصد نہیں دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم، پاکستان پیپلز پارٹی، ٹی ایل پی، جے یو آئی(ف) خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے میں ناکام رہیں۔خط میں کہا گیا کہ اگر یہ جماعتیں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو نہیں دیتیں تو وہ قانون کے تحت انتخابی نشان کے لیے اہل نہیں رہتیں۔چیف الیکشن سے استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن قانون کی خلاف ورزی کا نوٹس لے اور خلاف ورزی کرنے والی جماعتوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔