امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کہا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی پاکستان کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں پاکستان لوگوں کو متحد کرنے اور معاشروں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے کے لیے کوششیں تیز کر رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے پاکستانی سفارت خانے کی میزبانی میں منعقدہ گول میز مکالمےکے دوران مختلف مذاہب کی نمائندگی کرنے والے مذہبی رہنماؤں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جس میں گفتگو کا محور مختلف مذہبی برادریوں اور ملحقہ معاشروں کے درمیان امن اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا تھا۔
پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا کہ اس طرح کے اجتماعات ایک دوسرے کے عقائد کے بارے میں وسیع تر نقطہ نظر کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے شرکا پر زور دیا کہ وہ لوگوں میں تفرقہ کو ختم کرتے ہوئے مشترکات پر زیادہ توجہ دیں۔ مکالمے میں مذہبی رہنما، سفارت کار، بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف)، یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی )، تھنک ٹینکس اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی ۔
پاکستانی سفیر نے مذہبی اقلیتوں کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقلیتوں کے قتل کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔انہوں نے حاضرین کو یقین دلایا کہ حکومت پاکستان مذہبی عدم برداشت کو روکنے اور توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے تمام اقدامات کر رہی ہے۔اس موقع پر پاکستان میں سابق امریکی سفیر این پیٹرسن نے کہا کہ بین المذاہب مکالمے سے پرتشدد انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے۔جیوش اسلامک ڈائیلاگ سوسائٹی (جے آئی ڈی ایس ) کی نمائندگی کرنے والے ڈینیل سپیرو نے ابراہیمی مذاہب کے مشترکہ ورثے اور تمام لوگوں کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنے کی اہمیت پر زور دیا۔
سکھس فار امریکا تنظیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سریندر سنگھ گل نے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنے اور کرتار پور کوریڈور کے اقدام پر پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک امن اقدام ہے جسے عالمی برادری نے بھی سراہا ہے۔ اس موقع پر دیگر مقررین ایڈم سینٹر کے چیئرمین رضوان جاکا، آل نیبرز کے رکن مائیک کرو، امریکن ہندو کولیشن سے تعلق رکھنے والے آلوک سریواستو اور سماجی کارکن اور معروف آرٹسٹ کرینہ ہو اور پاکستانی امریکن کمیونٹی لیڈر عائشہ خان نے بھی خطاب کیا اور تناؤ کو دور کرنے اور معاشروں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا۔مقررین نے بین المذاہب مکالمے کی اہمیت اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کی کوششوں پر زور دیا۔ چیلنجوں کے باوجود تمام مذہبی رہنماؤں نے مزید جامع اور مساوات کے حامل معاشرے کی جانب مسلسل پیش رفت اور تعاون پر اعتماد کا اظہار کیا۔