سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان نے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے پرویز مشرف دور میں بھی شوکت عزیز کے بجائے سابق آمر کے نمائندے سے مذاکرات کیے تھے لہٰذا ہم وہاں بات کریں گے جہاں طاقت موجود ہے۔بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حمود الرحمٰن کمیشن بنانے کے دو مقاصد تھے جس میں ایک مقصد یہ تھا کہ ایسی غلطی دوبارہ نہ دہرائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ حمودالرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحیٰی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنی طاقت کے لیے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں دوبارہ وہی کچھ دہرایا جارہا ہے جس سے معیشت بیٹھ جائے گی۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساڑھے تین سال میں نیب نے 450 ارب اکٹھے کیے ہیں، 1100 ارب مزید جمع ہونا تھا، نیب ترامیم کے باعث ایک دفعہ 3 لاکھ اور دوسری دفعہ ڈیڑھ کروڑ اکٹھے ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کی وجہ سے ملک کا 1100 ارب کا نقصان ہوا، جو ملک گھٹنوں کے بل ہو وہ اتنے نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے میرے خلاف جھوٹا سائفر کیس بنانے پر مجھ سے پہلے معافی مانگے، ایف آئی اے کو صرف وکلا کی موجودگی میں جواب دوں گا، میرے ساتھ یہ سب محسن نقوی کرا رہا ہے اور ملک میں سیاسی انتقام جاری ہے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ اب تو سپریم کورٹ نے بھی آپ کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا کہا ہے تو سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ میں نے پرویز مشرف دور میں بھی شوکت عزیز سے مذاکرات نہیں کیے، مشرف کے نمائندے سے مذاکرات کیے تھے لہٰذا ہم وہاں بات کریں گے جہاں طاقت موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 14 مئی 2023 کو پنجاب الیکشن کی میٹنگ کے دوران بھی مسلم لیگ(ن) نے کہا تھا کہ جنرل عاصم منیر الیکشن نہ کرانے کا فیصلہ کرچکا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال کے کہنے پر ہم نے انتخابات پر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیے، قانون کے مطابق 90 دن میں الیکشن ہونے تھے لیکن جسٹس بندیال اپوزیشن کے ہتھکنڈوں کے دباؤ میں آگئے۔
جب صحافی نے ان سے سوال کیا کہ نواز شریف جب شیخ مجیب اور حمود الرحمٰن کمیشن کا حوالہ دیتے تھے آپ کہتے تھے نواز شریف فوج کے ادارے کو تباہ کر کے دوسرا مجیب الرحمٰن بننا چاہتا ہے، جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اس وقت میں نے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ نہیں پڑھی تھی، اب پڑھ لی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے ایکس ہینڈل سے ریاست مخالف وڈیو پوسٹ کیا آپ کی مرضی سے کی گئی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں جیل میں بیٹھ کر وڈیو کیسے پوسٹ کرسکتا ہوں؟۔
صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ اس پوسٹ کو اون کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اون کرتا ہوں لیکن جو وڈیو پوسٹ کی گئی وہ نہیں دیکھی اور اس پر بات نہیں کروں گا۔جیل میں دستیاب سہولیات کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ میں شکایت نہیں کرتا اور چوں چوں کرنے والا نہیں ہوں، مجھے ڈیتھ سیل والی چکی میں رکھا گیا ہے اور میرے پاس ایکسر سائز مشین کے علاوہ کوئی سہولت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ روم کولر ساری چکیوں میں لگے ہوئے ہیں، میرے سیل میں اٹیچ باتھ روم بھی نہیں اور نہانے کے لیے دوسری جگہ جاتا ہوں، نواز شریف اور آصف زرداری کو قید کے دوران لگژری سوئٹ دیے گئے تھے اور ان کے کھانے بھی باہر سے آتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ملاقاتوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا لیکن مجھے وکلا اور فیملی کے ساتھ صرف آدھا، آدھا گھنٹہ ملاقات کرنے دی جاتی ہے۔دوران گفتگو عمران خان اس وقت غصے میں آ گئے جب صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ اپنے دور اقتدار میں کہا کرتے تھے یہ سہولیات سب قیدیوں کو مل جائیں تو لوگ باہر سے آکر جیل میں رہنا پسند کریں گے،۔ اور اس سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اب تک ان سے کوئی رعایت یا سہولت نہیں مانگی اور مجھے کھانا بھی قیدی بناکر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک میں استحکام نہیں ہوگا سرمایہ کاری نہیں آئے گی، موجودہ بجٹ میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھے گی اور ملک کے قرضے بڑھتے جائیں گے۔سابق وزیر اعظم نے عندیا دیا کہ معاشی حالات دیکھ کر پیپلز پارٹی حکومت میں شامل نہیں ہو گی۔