ڈپریشن، ڈپریشن اور ڈپریشن

ڈپریشن، ڈپریشن اور ڈپریشن

حاجرہ بی بی

ڈپریشن ایسا جان لیوا مرض ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ بظاہر تو انسان نارمل نظر آتا ہے لیکن اُس کی دلی اور دماغی کیفیت بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا تقریباً ہر تیسرا شخص اس مرض میں مبتلا ہے۔ وقتاً فوقتاً ہم سب ڈپریشن کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں مثلاً اس مرض میں مبتلا شخص کو اکیلا نہیں رہنا چاہیے، مثبت سوچنا چاہیے، زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں گزارنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کی وجوہات میں جو سب سے اہم وجہ ہے ہم اُس کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم جو روزمرہ گفتگو کرتے ہیں جس کی ہمارے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اور ہمیں یاد بھی نہیں رہتی اُس کا اگلے انسان پر کیسا اثر پڑتا ہے؟؟؟ ہمارا الفاظ کا چناؤ کیسا ہوتا ہے؟؟؟ یا راہ چلتے ہم جو دوسروں پر فقرے کَستے ہیں اُس کا کیا ردِعمل ہو سکتا ہے؟؟؟

ہمیں پتا بھی نہیں چلتا اور کوئی بے گناہ انسان ہماری وجہ سے ڈپریشن میں چلا جاتا ہے۔ یہاں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کا کام بولنا ہے وہ کچھ تو کہیں گے نہ۔۔۔۔ہمیں اُن کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ وہاں انسان جتنا مرضی ظاہر کرے کہ اُسے فرق نہیں پڑتا لیکن کہیں نہ کہیں اُس کے اندر وہ لہجے وہ باتیں اٹک جاتیں ہیں۔ جو اُس کی بے سکونی اور بے چینی کا سبب بنتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوئی اُونچی آواز میں ہنس رہا ہے ہنسنے دیں، خاموش ہے رہنے دیں، جیسے مرضی بیٹھا ہے بیٹھنے دیں، ہمیں اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے اور بلا وجہ کی تنقید سے پرہیز کرنی چاہیے۔ لہذٰا میری آپ تمام قارئین سے دلی گزارش ہے کہ خدارا اچھے معاشرے کی پرورش میں اپنے حصّے کا کام بخوبی انجام دیں۔ کم از کم ہم خود تو سب کچھ جانتے بوجھتے کسی انسان کی ذہنی اضطرابی کی وجہ نہ بنیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --