ریٹلرز اور کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے مخصوص ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم یقینی بنایا جائے، پری بجٹ مشاورتی اجلاس

ریٹلرز اور کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے مخصوص ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم یقینی بنایا جائے، پری بجٹ مشاورتی اجلاس

 حکومت ریٹیلرز اور غیر رسمی شعبوں کے کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کےلئے ایک مخصوص ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو یقینی بنائے تاکہ غیر ٹیکس والے شعبوں سے آمدنی حاصل کی جاسکے۔ یہ بات مقررین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام پری بجٹ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اجلاس کا موضوع” زراعت، خوردہ اور رئیل اسٹیٹ شعبوں میں ٹیکس اصلاحات تھا ۔اپنے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اس مشاورت کا مقصدبجٹ میں زیادہ ٹیکس والے شعبوں کا جائز ہ لینا ہے۔ انہوں نے رئیل اسٹیٹ، آئی ٹی اور زراعت کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں مذکورہ تینوں شعبوں کو درپیش رکاوٹوں کو تلاش کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف آئندہ بجٹ کے لئے اہم ہیں بلکہ آئی ایم ایف مذاکرات کےلئے بھی ضروری ہے تاکہ موجودہ ٹیکس کی صورتحال اور مجوزہ ٹیکسیشن پلان کے مضمرات کی مکمل تصویر فراہم کی جاسکے۔ایس ڈی پی آئی کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ حکومتی شراکت داروں کی جانب سے آزادانہ مشاورت کے پری بجٹ مشاورت بہت ضرو ری ہے اور آئی ایم ایف بھی اسی مشاورتی عمل کا جائزہ کے بعدحکومت کی اگلے پروگرام کیلئے رہنمائی فراہم کرے گا۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی) کے صدر احسن ظفر بختاوری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں (ایل ای اے) کی مدد سے ایک مناسب ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم تیار کیا جائے جو ٹیکس ادا نہ کرنے والے خوردہ فروشوں کی نشاندہی کرسکے جو سالانہ اربوں روپے کا کاروبار کر رہے ہیں۔

 

فارمرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سی ای او آفاق ٹوانہ نے کہا کہ زیر بحث تینوں شعبوں میں غیر رسمی شعبے کو ٹیکس نظام میں لانے کا مشترکہ چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کا شعبہ تین سطحوں پر ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس وں کو منصفانہ بنایا جانا چاہئے۔رئیل اسٹیٹ کے سینئر تجزیہ کار احسن ملک نے کہا کہ ریگولیٹرز اور ٹیکس ادا نہ کرنے والے شعبوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جسے منصفانہ اور ترقی پسند ٹیکس نظام کے ذریعے پر کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی صنعت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جبکہ درآمد شدہ لگڑری اشیاءپر ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ ہمیں چھوٹے کسانوں اور خوردہ فروشوں کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک نے کہا کہ نئی حکومت کو پہلے سے ٹیکس والے شعبوں پر کم بوجھ ڈالنا چاہئے۔ٹی آئی ای کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سمیرا عباسی نے کہا کہ اسٹارٹ اپس اور چھوٹے کاروباروں میں ریٹیلرز کی مناسب کیٹیگریز کے ساتھ وضاحت لانے کی ضرورت ہے تاکہ جامع ٹیکس نظام کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے خوردہ فروش خاص طور پر غریب خواتین محنت طلب کاغذی کارروائی کی وجہ سے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتی ہیں جس کی وجہ سے خواتین کاروباری افراد ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سخت ٹیکس ریگولیٹری نظام اسٹارٹ اپ کی ترقی کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔سمیرا عباسی نے کہا کہ تعمیل کی لاگت کو کم کرنے اور مقامی عوام کے لئے منصفانہ بنانے کی ضرورت ہے، جبکہ بجٹ کے دوران اسٹارٹ اپس میں خواتین پر بات نہیں کی جاتی ہے جس پر زیادہ واضح طور پر تبادلہ خیال کیا جانا چاہئے۔

-- مزید آگے پہنچایے --