واٹر ایڈکی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والی ہیلتھ سٹڈی بعنوان،”پاکستان میں پانی کی قلت، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت پر آنے والے اخراجات“کی نقاب کشائی اسلام آباد میں ہوئی جوکہ صحت عامہ کے اہم چیلنجز سے نمٹنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) سے ڈاکٹر عابد امان برکی کی قیادت میں ہونے والی یہ سٹڈی، پانی، صفائی اور حفظان صحت (WASH) کی سہولیات تک ناکافی رسائی کی وجہ سے ملیریا، اسہال اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریوں کے معاشی بوجھ پر روشنی ڈالتی ہے۔نتائج میں 116.13 بلین روپے کی حیران کن ڈومیسٹک لاگت کی نشاندہی کی گئی ہے جس کا بوجھ کم آمدنی والے گھرانے برداشت کر رہے ہیں۔
مہمان خصوصی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈکوآرڈینیشن کی ممبر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے صحت اور WASH کے مابین تعلق مضبوط بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔بعد ازاں پینل ڈسکشن میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کے ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ڈاکٹر مسعود جوگیزئی،یونیسیف میں WASH منیجراسورو تاکاہاشی، صوبائی محکمہ صحت سندھ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایم اینڈ ای ڈاکٹر شاہ زیب مرزا اورایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر،ڈاکٹر عابد قیوم سلہری جیسے ماہرین شامل تھے
واٹر ایڈ میں پروگرام کی حکمت عملی اور پالیسی کے سربراہ محمد فاضل نے اس بات پر زور دیا کہ حالیہ تحقیقی مطالعات نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ناقص WASH پاکستان میں بیماری اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے لیے ہم سب کو اجتماعی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے لوگوں کی بہتر صحت اور غذائیت کے لیے محفوظ واش تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
واٹر ایڈ پاکستان کے انٹیرم کنٹری ڈائریکٹر فرقان احمد نے موسمیاتی تبدیلی کے WASH اور صحت عامہ پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آئیے مل کر صحت کے نقطہ نظر سے WASH کو ترجیح دینے کے لیے اپنی اجتماعی کوششیں جاری رکھیں اور پاکستان میں پائیدار اور محفوظ واش سروسز کے لیے سب تک رسائی کے حصول کے لیے کام کریں۔