عرب ممالک اور ترکیہ نے عالمی عدالت انصاف میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بارے میں جاری سماعت کے دوران مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ یہ ناجائز قبضہ ہی خطے میں امن کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔ میڈیا کے مطابق عرب ملکوں اور ترکیہ کی طرف سے یہ مطالبہ عدالتی سماعت کے آخری روز سامنے آیا، عالمی عدالت انصاف نے چھ دن مسلسل سماعت کی ہے، اس دوران 50ملکوں اور 3 بین الاقوامی تنظیموں نے عدالت انصاف کے سامنے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف فیصلہ دینے کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔یہ عدالتی کارروائی 2022 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر سماعت کی گئی ہے، یہ فیصلہ عدالتی سفارشاتی انداز کا ہوگا جس پر عمل درآمد کرنا لازمی نہیں ہو گا۔اسرائیل کے فلسطینی پر قبضے کے بارے میں یہ سماعت عالمی عدالت انصاف میں اس روز اختتام کو پہنچی ہے جب اسی عدالت نے ٹھیک ایک ماہ پہلے جنوبی افریقہ کی اسرائیلی نسل کشی کے خلاف درخواست پر ایک فیصلہ دیا تھا۔عالمی عدالت انصاف نے ٹھیک ایک ماہ قبل اسرائیل کو حکم دیا تھاکہ اپنی فوج کو اپنے دائرہ کار کے اندر نسل کشی والے اقدامات سے روکے۔
ترکیہ کے نائب وزیر خارجہ احمد یلداز نے عالمی عدالت انصاف کے جج حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں بدامنی کی جڑ فلسطین پراسرائیلی قبضہ ہے، 7 اکتوبر سے پیدا شدہ صورت حال کی وجہ بھی یہ بنی ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تصادم کی اصل وجہ کو نہیں دیکھا گیااور جب تک اسے ختم نہ کیا جائے گا علاقے میں امن نہیں ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کی عدالت اس قبضے کو غیر قانونی قرار دے۔اس بارے میں اسرائیلی مؤقف یہ ہے کہ اگر عدالت نے اس معاملے میں مداخلت کی تو یہ تصادم کے خاتمے کیلئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اسرائیل کے نزدیک عدالت کے سامنے جن سوالوں کو اٹھایا گیا ہے وہ متعصبانہ ہیں۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے اپنے نمائندے کے ذریعے بیان میں کہا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ انصاف کی توہین ہے ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس قبضے کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور کسی ابہام کے بغیر اس قبضے کے فریقوں کے لیے قانونی مضمرات بھی فیصلے میں شامل کیے جائیں خصوصاً جو اس غیر قانونی قبضے کی صورت حال سے نکلنے کے لیے تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں۔فلسطینی نمائندے نے گزشتہ ہفتے عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور دوریاستی حل تک پہنچنے کے لیے رہنمائی کی جائے کیونکہ کئی دہائیوں پر پھیلے اس مسئلے نے ہی غزہ کی موجودہ صورت حال کو جنم دیا ہے۔ میڈیا کے مطابق عالمی عدالت انصاف کے فاضل جج حضرات ان سماعتوں کے بعد اپنی رائے ظاہر کرنے میں تقریبا چھ ماہ کا وقت لے سکتے ہیں۔واضح رہے اب تک غزہ میں اسرائیلی فوج 30ہزار فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہےجبکہ 69ہزار سے زائدزخمی ہوچکے ہیں۔