اس کے ساتھ ہی رقیم بن خلاط کے کچھ ساتھی گھوڑوں کی حفاظت کے لیے وہیں رہ گئے اور وہ سارے گھوڑوں کو لے کر درختوں کے ایک جھنڈ کی اوٹ میں ہو گئے تھے جبکہ باقی جوانوں کو لے کر رقیم بن خلاط آگے بڑھا ۔ تھوڑی دیر تک وہ جھک جھک کر فاصلے کو سمیٹتے رہے جب وہ قلعہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تب وہ زمین پر لیٹ گئے تھے ۔ رقیم بن خلاط اور مجاہد بن یوسف قلعہ کے صدر دروازے کی طرف گئے تھے جبکہ باقی دیگر ساتھی قلعے کے اطراف میں پھیل گئے تھے ۔ پھر آن کی آن میں ایک انقلاب بر پا ہوا۔
وہ اس طرح کہ رقیم بن خلاط کے ساتھی سانپ کی طرح رینگ کر چلتے ہوئے قلعہ کے اطراف میں گئے اور جس قدر قلعہ کے اطراف میں محافظ تھے ان سب کا انہوں نے خاتمہ کر دیا اور پھر وہ قلعہ کے چاروں طرف گھوم پھر کر ایک طرح سے پہرا دینے لگے تھے۔ دوسری طرف رقیم بن خلاط اور مجاہد بن یوسف لیٹ کر رینگتے ہوئے قلعہ کے صدر دروازے کے قریب آئے ان دونوں نے دیکھا کہ قلعہ کے صدر دروازے کے عین سامنے . آگ کا ایک الاؤ روشن تھا اور اس کے گرد پانچ جوان بیٹھے اپنے آپ کو گرم رکھنے کے ساتھ ساتھ صدر دروازے پر پہرا بھی دے رہے تھے۔ رقیم بن خلاط ایک جگہ رک گیا اس کی طرف دیکھتے ہوئے مجاہد بن یوسف بھی رک گیا تھا۔ پھر رقیم بن خلاط اپنا منہ مجاہد بن یوسف کے کان کے پاس لے گیا پھر راز دارانہ سرگرشی کی ۔
سن مجاہد میرے بھائی ! سامنے دیکھ آگ کا الاؤ روشن ہے اور اس الاؤ کے گرد قلعہ کے پانچ محافظ بیٹھے پہرا دے رہے ہیں ۔ دیکھ اپنی کمان سنبھال اور چلے میں تیر لگا میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ دو تیر تو چلا اور دو ہی تیر میں چلاؤں گا۔ لیکن نشانہ خطا نہیں جانا چاہئے ۔ اس طرح پانچ میں سے دو کو تیرے تیروں کا شکار ہونا چاہئے اور دو کو میرے تیروں کی وجہ سے موت سے بغلگیر ہو جانا چاہئے ۔ اب باقی پانچواں بچے گا اسے کچھ نہیں کہنا۔ اسے میں زندہ پکڑ کر اس
سے معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ آؤ اب اپنے کام کی ابتداء کریں۔
رقیم بن خلاط کے کہنے پر مجاہد بن یوسف فوراً حرکت میں آیا اپنی پیٹھ پر لٹکی ہوئی کمان اس نے سنبھالی پیٹھ پر بندھے ہوئے ترکش سے اس نے صرف دو ہی تیر نکالے اور ایک چلے پر چڑھایا۔ دوسری طرف رقیم بن خلاط بھی ایسا ہی کر چکا تھا۔ پھر دونوں نے ایک ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کے بعد جو تیر چلائے تو ان دو تیروں سے دو محافظ چھد کر رہ گئے ۔ باقی بچنے والے مینوں محافظ بدحواس ہو کر اپنے زخمی ساتھیوں کی طرف بڑھے تھے اتنے میں رقیم بن خلاط اور مجاہد بن یوسف کی طرف سے دو اور سنسناتے ہوئے تیر آئے اور دو اور محافظ زمین پر گر کر لوٹنے لگے تھے۔ ایسا ہونا تھا کہ رقیم بن خلاط اپنی جگہ سے اٹھ کر صدر دروازے کی طرف