غرناطہ کا چوپان (قسط نمبر 58)

غرناطہ کا چوپان (قسط نمبر 58)

رہیں میں بہت جلد لوتا ہوں اس کے بعد ہم دونوں یہاں سے کوچ کرتے ہیں منذر بن طریف کا یہ جواب سن کر رقیم بن خلاط مطمئن ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی منذر بن طریف اور مجاہد بن یوسف وہاں سے چلے گئے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد منذر بن طریف لوٹ آیا۔ اس کے بعد اپنے چار ہزار کے لشکر کو لے کر رقیم بن خلاط اور منذر بن طریف دونوں اپنے پڑاؤ سے کوچ کر گئے تھے۔
رات بھاگتی جا رہی تھی بارش اس طرح جاری تھی۔ رقیم بن خلاط اور منذر بن طریف دونوں اپنے چار ہزار کے لشکر کے ساتھ المریہ نام کی بستی کے قریب نمودار ہوئے وہاں رقیم بن خلاط نے اپنے لشکر کو روک دیا۔ پھر وہ اپنے پہلو میں گھوڑے پر سوار اپنے ساتھی منذر بن طریف کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔
منذر میرے بھائی لشکر کو برابر دو حصوں میں تقسیم کر دو۔ تم آدھے لشکر کے ساتھ یہیں کھڑے رہو اور یہیں یعنی اس سمت سے تم اپنے حملے کی ابتداء کرو گے۔ میں اپنے حصے کے لشکر کے ساتھ چکر کاٹتے ہوئے بستی کی دوسری سمت جاتا ہوں وہاں حملہ کی ابتدا کرنے سے پہلے میں جلتے ہوئے پروں کا ایک تیر چھوڑوں گا جو تمہارے لئے اشارہ ہو گا۔ اشارہ ملتے ہی تم المریہ پر ٹوٹ پڑتا ۔ العربیہ کے ہر فرد کو قتل کرنا ہر گھر کو لونا اور اپنے پیچھے آگ لگاتے چلے جانا تا کہ کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع ہی نہ ملے ۔ رات کی تاریکی میں منذر بن طریف نے جب اثبات میں سر ہلا دیا تب لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ اپنے حصے کے ساتھ منذر بن طریف
و ہیں رہا جبکہ رقیم بن خلاط اپنے حصے کے لشکر کو لے کر بستی کی دوسری سمت جا رہا تھا۔ دوسری سمت جا کر رقیم بن خلاط نے فضاؤں میں جلتے ہوئے پروں کا ایک تیر چھوڑا جو منذر بن طریف کے لئے اشارہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی رقیم بن خلاط المریہ کے نام کی اس بستی پر خون کے پیاسے سیاہ کانٹوں اور گرسنہ جذبوں کی اڑتی جھاگ کی طرح حملہ آور ہو گیا تھا۔۔ دوسری طرف سے جلتے ہوئے پروں والے تیر کا اشارہ ملتے ہی منذر بن طریف بھی بے مہا با پانیوں کی یلغار، پرت در پرت خون بکھیرتی قضا کی طرح حملہ آور ہو چکا تھا۔ المریہ کے لوگ جو گہری نیند سوئے ہوئے تھے ان پر جیسے زلزلہ اور بھونچال آ گیا ہو ایک ۔ طرف سے رقیم بن خلاط دوسری سمت سے منذر بن طریف نے ان پر قیامت برپا کر کے رکھ دی تھی دونوں نے اپنے سامنے آنے والے ہر ذی حیات کا قتل عام کیا ۔ بستی کے ہر گھر کو لوٹ کر انہوں نے آگ لگائی اس طرح تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے بستی کی حالت موت و مرگ کی شام سے لپٹ کر روتی : بادیوں جیسی بنا کر رکھ دی تھی۔

(جاری ہے)

-- مزید آگے پہنچایے --