غرناطہ کا چوپان (قسط نمبر 56)

غرناطہ کا چوپان (قسط نمبر 56)

برات آدمی کے لگ بھگ جا چکی تھی ۔ ہر طرف ہر سمت معدودیت کی زندگی جیسی خاموشی اور زخمی ردا جیسی چپ تھی ۔ بارش یوں جاری تھی جیسے کوئی وفا پرستوں کی یادگار میں بڑی فراخدلی سے محبت کے موتی لٹا رہا ہو۔ برسات جاڑے اور پالے کی وجہ سے ہر شئے پر بن
بیاہی بے سہارا خواہشوں جیسی اداسی چھائی ہوئی تھی۔
ایسے میں رقیم بن خلاط اپنے خیمے کے باہر آگ کے جلتے ہوئے الاؤ کے قریب بیٹھا اپنے آپ کو گرم رکھے ہوئے تھا۔ اس کی پشت پر اس کا خیمہ تھا اور اس کے خیمے کے سامنے چمڑے کا ایک چھوٹا سا چھپر تھا جس کے نیچے لکڑی کا ایک مضبوط پنجرہ تھا جس میں شاہین بند تھے۔ یہ وہ شاہین تھے جن سے رقیم بن خلاط جبل ابج میں اپنے مسکن کے ساتھ پیغام رسانی کا کام لیتا تھا مسکن میں بھی ایسے ہی شاہین تھے جو اپنے امیر رقیم بن خلاط سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے
پالے گئے تھے۔ فضاؤں میں چاروں طرف خاموشی تھی ۔ صرف بارش کی رم جھم ایک ترنم کے ساتھ ہر سو ایک نا آشناسی آواز میں دے رہی تھی۔ ایسے میں سامنے کی طرف سے منذر بن طریف اور مجاہد بن یوسف نمودار ہوئے دونوں نے اپنے آپ کو بارش سے بچانے کے لئے چمڑے کی چادروں میں ڈھانپ رکھا تھا۔ دونوں تیز تیز چلتے ہوئے اس چھپر تلے آ کھڑے ہوئے جس چھپر تلے آگ کے الاؤ کے سامنے رقیم بن خلاط بیٹھا ہوا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی رقیم بن خلاط اپنی جگہ پر
اٹھ کھڑا ہوا اس موقع پر منذر بن طریف بولا اور رقیم بن خلاط کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ امیر ہم نے کوچ کی تیاری مکمل کر لی ہے اپنے چھ ہزار ساتھیوں میں سے دو ہزار کو میں نے ریوڑ اور پڑاؤ کی حفاظت پر مامور کیا ہے جبکہ چار ہزار سکح جوان اپنے گھوڑوں پر سوار ہمارے
ساتھ کوچ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کھڑے مجاہد بن یوسف کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ ان الفاظ پر رقم بن خلاط کے چہرے پر بلک بلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی پھر وہ اپنے سامنے مجاہد میرے بھائی میرے عزیز ، اس مہم میں میں اور منذ رلشکر کی کمانداری کریں گے ۔ تم ہماری غیر موجودگی میں پڑاؤ میں رہو گے اور پڑاؤ کی حفاظت کے فرائض انجام دو گے اور سنو

(جاری ہے)

-- مزید آگے پہنچایے --