غرناطہ کا چوپان (قسط نمبر 53)

غرناطہ کا چوپان (قسط نمبر 53)

کرتا تھا۔ سنو اپنے جوانوں سے کہو کہ شاہراہ کے دائیں جانب جو علی وادیاں ہیں ان کے اندر پڑاؤ کرلیں اور ریوڑ کے جانوروں کو بھی دادی کے اندر لے جائیں ۔ کچھ دن تک ہم نہیں جانا کریں گے ۔ تم دونوں میری بات غور سے سنو چند یوم تک ہم یہیں پڑاؤ کریں گے اور آنے جانے والوں پر یہ ظاہر کرتے رہیں گے کہ المریہ سے نکل کر جو مسلمان بھاگے تھے ان کا پر حملہ آور ہوئے اور ان سب کا قتل عام کر دیا ۔ تعاقب المریہ کے سلح جوانوں اور المریہ کے رہنے والوں نے کیا تھا لیکن یہ مسلمان پلٹ کر ان
پھر مزید ہمیں یہ کہنا ہو گا کہ عین اس موقع پر ہم بھی اپنے ریوڑ کے ساتھ یہاں پہنچ گئے ہمیں جب خبر ہوئی کہ بھگوڑے مسلمانوں نے ہمارے نصرانی بھائیوں کا قتل عام کیا ہے تو ہم مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور ان سب کا بھی قتل عام کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔ اس پر منذر بن طریف فورا بولا اور پوچھنے لگا۔ پر امیر محترم اس میں ایک بہت بڑی قباحت ہے اس پر رقیم بن خلاط مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ پہلے مجھے اپنی بات پوری کرنے دو۔ اس کے بعد تمہیں جو قباحت نظر آئے اس کا بلا جھجک اظہار کر دینا۔ اس پر منذر بن طریف خاموش ہو گیا جبکہ رقیم بن خلاط دوبارہ بولا اور کہنے لگا۔ سنو میرے ساتھیو ! کسی کو یہ پتہ نہیں ہے کہ المریہ کے مسلح جوان بھی المریہ کے حاکم کے لشکریوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعاقب میں نکلے ہیں۔ لہذا اب ہمیں یہ کام کرنا ہوگا کہ المریہ کے رہنے والے وہ نوجوان جو خفیہ خفیہ مسلمانوں کے تعاقب میں نکلے تھے جن کی لاشیں اس وقت ہمارے سامنے پڑی ہیں ان ساری لاشوں کے گلوں سے لٹکی ہوئی صلیبیں اتار لو ۔ جو مسلمان بھاگ کر ہمارے ریوڑ میں شامل ہوئے ہیں ان کے آباؤ اجداد بھی اچھینی تھے لہذا یہ جو المریہ کے لوگ ہمارے ہاتھوں مارے گئے ہیں یہ شکل وصورت میں بالکل مسلمانوں جیسے ہیں اور کوئی پہچان نہیں سکتا کہ یہ نصرانی ہیں یا مسلمان ۔ اب ہم انہیں مسلمان ظاہر کریں گے اور پوچھنے والوں سے یہ کہیں گے کہ یہ مسلمان ہیں اور المریہ کے حاکم کے جوانوں سے یہ لڑے تھے لیکن ان مسلمانوں نے پلٹ کر المریہ کے حاکم کے لشکریوں پر حملہ کر دیا تھا اور ان سب کا قتل عام کر دیا۔ جبکہ ہم نے جوابی حملہ کرتے ہوئے ان سب مسلمانوں کو ختم کر دیا۔ اس پر کسی کو شک و شبہ نہ ہو گا کہ ہم نے مسلمانوں کو اپنے پاس پناہ دے دی ہے اور سارے تعاقب کرنے والے نصرانیوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ اس پر منذر بن طریف بولا اور کہنے لگا یہ بہترین تجویز ہے اس پر عمل کر کے ہم نہ صرف والٹی ارغون جیمی اول کی نگاہوں میں عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں بلکہ آس پاس کے نصرانی قصبوں اور بستیوں کے لوگ بھی ہمارے معتقد اور فریفتہ ہو جائیں گے کہ ہم نے مسلمانوں سے مرنے والے نصرانی بھائیوں کا انتظام

(جاری ہے)

-- مزید آگے پہنچایے --