اسرائیلی طیاروں کی شدید بمباری، 240 فلسطینی شہید

اسرائیلی طیاروں کی شدید بمباری، 240 فلسطینی شہید

عارضی جنگ بندی ختم ہوتے ہی صیہونی فوج غضبناک ہوگئی، اسرائیلی طیاروں کی شدید بمباری سے240 فلسطینی شہید جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوگئے۔غزہ میں عارضی جنگ بندی میں توسیع کے لیے ہونے والی بات چیت تاحال بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے اور غزہ میں دوبارہ شروع ہونے والی جھڑپیں آج دوسرے روز بھی جاری ہیں ، اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمال اور جنوب میں 200 اہداف کونشانہ بنایا ہے ۔

خبررساں ادارے کے صحافیوں نے بتایا کہ جنوبی غزہ میں خان یونس کے مشرقی علاقے شدید بمباری کی زد میں آئے کیونکہ جنگ بندی کی ڈیڈ لائن گزشتہ روز صبح طلوع ہونے کے فوراً بعد ختم ہو گئی تھی۔غزہ میں ہسپتالوں کے مناظربھی خوفناک فلموں جیسے ہیں ، اسرائیل کےتازہ حملوں سےلگتاہے کہ دوبارہ بچوں کے قتل عام کی منظوری دے دی گئی ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں حماس نے بھی اسرائیلی شہروں پردرجنوں جوابی راکٹ حملے کیے جس کے باعث تل ابیب میں بھی سائرن بج اٹھے۔اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے اور لبنانی سرحد پر بھی حملہ کرتے ہوئے 3 لبنانی شہریوں کو شہید کردیا جبکہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے رفاح سے فلسطینیوں کی امداد بھی بند کردی ہے۔

لبنان کی سرحد کے قریب متعدد اسرائیلی قصبوں میں ممکنہ طور پر راکٹوں کے گھیرے جانے  کے خدشہ سے سائرن بجائے گئے ، میڈیارپورٹس کے مطابق حزب اللّٰہ نے ایک گھنٹے میں اسرائیل پر 5 حملے کئے۔

شامی علاقے پر اسرائیلی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے روس کا کہنا ہے کہ کہ دمشق پر اسرائیلی حملہ شام کی خودمختاری  اورعالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔اقوام متحدہ میں کمشنر انسانی حقوق وولکر ترک نے غزہ میں بمباری پرتشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ تباہ کن ہے، اب اسے روکنا ہوگا۔

ترجمان اقوام متحدہ سٹیفن ڈوجرک نے پریس کانفرنس میں کہا کہ غزہ میں جنگ دوبارہ شروع ہونےسے صورتحال انتہائی تشویشناک ہوگئی ہے اور غزہ پہنچنےوالی امدادکی بھی کوئی خبرنہیں ۔ادھر عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بھی  اسرائیل کی جانب سے امداد سامان کی ترسیل روکنے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ غزہ میں ہر صورت انسانی امداد پہنچانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل اسی سطح پر ہونی چاہیے جیسے جنگ بندی کے دنوں میں ہو رہی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ غزہ کے لوگوں کو کھانے، پانی اور دواؤں سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء کی اشد ضرورت ہے۔

دوسری جانب عالمی طاقتوں کی جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں تاہم ثالثوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری ان جھڑپوں کو دوبارہ روکنے کی کوششوں کو مشکل بنا رہی ہے۔مصر کی سرکاری انفارمیشن سروس کی سربراہ نے کہا ہے کہ مصر اپنے شراکت داروں کی مدد سے غزہ میں جنگ بندی کی جلد از جلد بحالی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نےغزہ میں محفوظ اور پائیدار امن کووقت کی اہم ضرورت قراردےدیا۔انٹونی بلنکن نے کہا کہ جنگ بندی کے خاتمے کے باوجود امریکا کی توجہ یرغمال افراد کی رہائی پر مرکوز ہے، امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ نے دبئی میں متحدہ عرب امارات ، مصر، اردن، قطر اور بحرین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ساتھ فلسطینی حکام سے بھی ملاقات کی ۔

گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ حماس کے ساتھ سات روزہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے حماس پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ایک بار پھر غزہ پر فوجی آپریشن کا آغاز کردیا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر نے غزہ جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے عزم کا ااظہار کیا جبکہ  اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتامر بین گویر نے کہا کہ فوج کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ غزہ واپس لوٹنا چاہیے۔

یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا آغاز 24 نومبر سے ہوا تھا جس میں تین مرتبہ توسیع ہوئی اور جمعہ کی صبح جنگ بندی کا وقت ختم ہوگیا جس میں کوئی توسیع نہیں کی گئی۔

سات روزہ جنگ بندی کے دوران دونوں طرف سے مجموعی طور پر 325 قیدیوں کا تبادلہ ہوا، حماس نے 104 جبکہ اسرائیل نے240قیدیوں کو رہا کیا ،  جنگ بندی کے آخری روز حماس نے 8جبکہ اسرائیل نے 30فلسطینی قیدیوں کو رہاکیا۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد زخمی ہیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --