نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کا 15 ستمبر کے فیصلے سے اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے نیب ترامیم فیصلے پر جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ عدلیہ قانون سازی کا تب جائزہ لے سکتی ہےجب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو، قانون سازوں کا مفاد سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔
جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اختلاف رائے رکھنے والا ہجوم کی سمت میں نہیں، مستقبل کی سمت میں چلتا ہے، عدالتوں کو پاپولر سیاسی بیانیے پر نہیں چلنا ہوتا، عوامی جذبات کے خلاف جاکربھی عدالت کو آئین وقانون کے مطابق فیصلے دینا ہوتے ہیں۔انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اداروں کے درمیان توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب احترام کا باہمی تعلق ہو، پارلیمانی نظام میں عدلیہ کو ایگزیکٹویا مقننہ کے مخالف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا، میں آئین کے آرٹیکل 8(2) کے پیش نظردرخواست کو میرٹس پر نہ ہونے پرخارج کرتا ہوں۔
فاضل جج نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پارلیمان کے بنائے تمام قوانین بالآخرکسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں، نیب قانون کے تحت ججز اور فوجی افسران کا احتساب ہو سکتا ہے، کیس کی50 سماعتوں پر سوال کیا کہ کیا فوجی افسران اور ججزکا احتساب ہو سکتا ہے؟ فوجی افسران اور ججزبھی نیب ترامیم کے تحت قابل احتساب ہیں، تاثرہےکہ فوجی افسران اورججز کی کرپشن کا کوئی احتساب نہیں ہو سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پارلیمنٹیرین کا قانون چیلنج کرنے کا حق دعویٰ نہیں بنتا، جمہوری نظام میں اکثریت کا ہی فیصلہ یا قانون سازی حتمی تصورہوتی ہے، اکثریت سے منظور قانون سازی کو حمایت میں ووٹ دینے والوں کے بجائے پوری پارلیمنٹ کی قانون سازی سمجھا جانا چاہیے، پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اختلاف کرنے والے اس کوچیلنج کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، عدالت پارلیمنٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔