علی وزیر اور ایمان مزاری جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے

علی وزیر اور ایمان مزاری جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری اور سابق رکن اسمبلی علی وزیر کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کردیا۔

اسلام آباد پولیس نے بغیر اجازت جلسہ کرنے، کارسرکار میں مداخلت اور بغاوت و دہشت گردی کی دفعات کے تحت پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں سمیت دیگر افراد کے خلاف درج مقدمات میں گرفتار ایمان مزاری اور علی وزیر کو عدالت میں پیش کیا۔

ڈیوٹی جج احتشام عالم نے مقدمے کی سماعت کی، پولیس نے علی وزیر اور ایمان مزاری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، وکیل زینب مزاری نے کہا کہ یہ تمام قابل ضمانت دفعات ہیں، کون سے معاشرے میں یہ چیزیں ہوتی ہیں۔

پولیس نے کہا کہ سرچ وارنٹ تھے، بیل دی اور پھر ان کو گرفتار کیا گیا، ایمان مزاری کے وکلا عدالت کے سامنے بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میری مؤکل وکیل ہیں، یہ کوئی طریقہ کار ہے جس طرح انہوں نے گرفتار کیا۔

ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ کیا کسی کی کوئی عزت نہیں ہے، پراسیکیوٹر عدنان علی نے کہا کہ ایمان مزاری و دیگر کی جانب سے اداروں کے خلاف تقاریر کی گئیں، اس موقع پر پراسیکیوٹر عدنان علی کی جانب سے ایف آئی آر پڑھی گئی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ خاتون کا ریمانڈ کیسے ہو گا ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں قانون پڑھ کے عدالت کی معاونت کرتا ہوں، قانون میں طریقہ کار موجود ہے، اس کیس میں خاتون کا فزیکل ریمانڈ ہو سکتا ہے۔

وکیل زیب جنجوعہ نے کہا کہ انہوں نے ڈکیتی کی صرف ایک دفعہ ایف آئی آر میں شامل کی ہوئی ہے، رات ساڑھے 3 بجے سے انہوں نے گرفتاری کی ہوئی ہے، ابھی تک ایک سوال بھی نہیں کیا۔

دوران سماعت شیریں مزاری روسٹرم پر آگئیں، انہوں نے کہا کہ میں مقدمے میں نامزد نہیں ہوں، میرا موبائل بھی چھینا گیا، میرے گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے گئے، میں اس کے بعد خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہوں۔

جج نے شیریں مزاری سے مکالمہ کیا کہ آپ متعلقہ فورم پر رجوع کریں، عدالت نے شیریں مزاری اور ان کے گارڈ کا موبائل واپس کرنے کی ہدایت کر دی، عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر صاحب اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو ان کے موبائل واپس کریں۔

علی وزیر کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد میں فسطائیت کی اتنی فضا بنا دی گئی، وکیل علی وزیر پر درج ایف آئی آر ختم ہونی چاہیے۔

دوران سماعت عدالت میں ایمان مزاری اور علی وزیر کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کی دوسری ایف آئی آر بھی پیش کردی گئی۔

عدالت نے ایمان مزاری کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ دوسری ایف آئی آر سے متعلق کیا کہیں گے، ایمان مزاری کے وکیل کے دلائل دیے کہ ایک الزام میں 2 مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہوں نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر اداروں کے خلاف بیانات دیے ہیں، فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایمان مزاری اور علی وزیر کے خلاف دو درج ایف آئی آر میں فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد میں عدالت نے اپنا فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق دہشتگردی کے مقدمے میں ایمان مزاری اور علی وزیر کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا جب کہ بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار مداخلت کے مقدمے میں علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی اور ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق تفتیشی افسر کی جانب سے علی وزیر اور ایمان مزاری کے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت خاتون کا جسمانی ریمانڈ منظور نہیں کرسکتی، قانون کے مطابق خاتون کا جسمانی ریمانڈ صرف قتل، ڈکیتی کے مقدمات میں منظور کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ایمان مزاری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے، ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے، ایمان مزاری کو 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت پیش کیا جائے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ علی وزیر کو مقدمے میں ایک خصوصی کردار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، تفتیش اور برآمدگی کے لیے علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے، علی وزیر کو 22 اگست کو متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے دونوں کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمے میں جسمانی ریمانڈ منظوری کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔

فیصلے کے مطابق تفتیشی افسر کی جانب سے ملزمان علی وزیر، ایمان مزاری کے 10، 10 دن جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، ملزمان علی وزیر اور ایمان مزاری کا ایک، ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی عدالت کے سامنے پیش کریں، تفتیشی افسر ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ سے متعلق استدعا انسدادِ دہشت گردی عدالت کے سامنے رکھیں۔

قبل ازیں اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری اور سابق رکن اسمبلی علی وزیر کو ’تفتیش کے لیے‘ گرفتار کرلیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے کی گئی ایک پوسٹ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے علی وزیر اور ایمان مزاری کوگرفتار کرلیا ہے، دونوں ملزمان اسلام آباد پولیس کو تفتیش کے لیے مطلوب تھے، تمام کارروائی قانون کے مطابق عمل میں لائی جائے گی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کی جاری کردہ خبر کو ہی درست تسلیم کیا جائے، اس حوالے سے کوئی پولیس اسٹیشن سے بیان دینے کا مجاز نہیں ہے۔

بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پولیس کی جانب سے ایمان مزاری اور علی وزیر سے کس کیس میں تفتیش کی جارہی ہے۔

-- مزید آگے پہنچایے --