وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض سے کل ملاقات کرکے نگران وزیراعظم کے نام پر تبادلہ خیال کریں گے جس کے بعد نام الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا کیونکہ مشاورت کے لیے تین دن باقی ہیں۔
قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے لیے یہ مختصر ترین عرصہ ہے جہاں بے پناہ چیلنجز اور مشکلات کا سامنا تھا اور پچھلی حکومت کا بوجھ بدترین غفلت اور ناکامیوں کی بدولت ہم پر پڑا.
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 11 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ساتھیوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور ملک کا وزیراعظم منتخب کروایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ انتہائی مشکل حالات میں اتحادی حکومت نے مشکلات کا مقابلہ کیا، بدترین سیلاب کا مقابلہ کیا جس نے صوبہ سندھ کو بدترین نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کو تار تار کردیا گیا اور پاکستان کے وقار و اعتماد کو شدید چوٹ لگی، گزشتہ حکومت نے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو بری طرح مجروح کیا جس کی بنا پر پاکستان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ سائفر کے ڈرامے نے تیل پر جلتی کا کام کیا، جس کی وجہ سے امریکا سے تعلقات بری طرح سے متاثر ہوئے، چین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا جس کی وجہ سے دوستانہ تعلقات متاثر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ قرض لے لے کر پوری دنیا کے سامنے ہماری گردن کو دنیا کے سامنے جھکایا گیا اور گزشتہ حکومت نے ملک کے داخلی معاملات پر اس طرح اقدامات اٹھائے کہ جس سے ملک میں زہریلہ پروپیگنڈا پیدا کیا گیا اور ایوان میں موجود ایک دو کو چھوڑ کر سب کو چور اور ڈاکو کہا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مشکلات کا اندازہ تو تھا لیکن ان کی اتنی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا، یوکرین جنگ کی وجہ سے کساد بازاری بڑھی ہوئی تھی اور ہر بار جب پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو کابینہ میں بحث ہوتی تھی کہ غریب عوام پر یہ بوجھ کیسے ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے اربوں روپے خرچ کرکے باہر سے گندم منگوانی پڑی۔
وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے چار سالہ دور میں پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا، موجودہ حکومت نے 16 ماہ میں کسی کو نہ گرفتار کروایا نہ ہی کسی کے پیچھے نیب کو لگایا، اگر آج ایک پارٹی رہنما کو سزا ملی ہے تو اس میں ہمیں کوئی خوشی نہیں، کسی کو اس پر مٹھائی تقسیم نہیں کرنی چاہیے، لیکن اس ملک کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی جس کی ابتدا 9 مئی کو ہوئی جس دن کو ’سیاہ دن‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے قربانی دی لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نے اسی ایوان میں خطاب کرتے کہا تھا کہ ہم ہم ان (طالبان) کو دعوت دیتے ہیں کہ یہاں آئیں اور اس کے بعد دہشت گردی نے کس طرح سر اٹھایا یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کس طرح ہو سوات میں آئے، تھانو پر قبضہ کیا اور آج تک ملک بھر میں دہشت گردی کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی فوجی، سپھہ سالار جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت تھی، اس میں کوئی شک نہیں رہا اب، میں یہ بات انتہائی ذمہ داری سے کر رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج رات صدر پاکستان کو اسمبلی کی تحلیل کے لیے تجویز ارسال کروں گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس ایوان کو اس بدترین ساشزش کا دوبارہ نوٹس لینا چاہیے بلکہ دوبارہ ایک قرارداد منظور کرکے اس بات کا اعادہ کریں کہ کسی کو قیامت تک یہ ہمت نہ ہو کہ وہ پاکستان کی فوج کے خلاف اس طرح کی حرکت کر سکے۔
شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان کے نمائندگان کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے کچھ مسائل حل ہوئے ہیں جو حل نہیں ہوئے وہ حل کریں گے، ان کے اعتراضات جائز ہیں کیونکہ بلوچستان باقی صوبوں کے لحاظ سے ترقی میں پیچھے رہ گیا ہے۔
شہباز شریف نے سابق وزرائے اعظم محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو خراج تحسین پیش کیا اور مزید کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بہترین سفارت کاری کی اور پاکستان کے نام کو اجاگر کرنے کے لیے پوری کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض سے کل ملاقات کرکے نگران وزیراعظم کے نام پر تبادلہ خیال کریں گے جس کے بعد نام الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا کیونکہ مشاورت کے لیے تین دن باقی ہیں۔
قبل ازیں اسلام آباد میں کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ 11 اپریل 2022 کو ہماری قومی اسمبلی نے ہم پر جو اعتماد کیا اور مخلوط حکومت وجود میں آئی اس نے 16 ماہ میں حتی المقدور کوشش کی کہ نہ صرف اس وقت کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے اور عوام کی خدمت کے لیے پوری دیانتداری اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خدمت کی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ تاریخ کی مختصر ترین حکومت تھی اور ہم سب سے پہلے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس نے پورے پاکستان میں تباہی مچادی تھی لیکن چاروں صوبوں نے مل کر وفاقی سطح پر اس سے نمٹنے کے لیے دن رات محنت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ خاص طور پر وفاق سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 80 ارب روپے تقسیم کیے گئے اس کی شفافیت پوری دنیا جانتی ہے، اس کے علاوہ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی صورتحال میں تمام وفاقی وزرا نے بے حد محنت کی جن پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس کے علاوہ جو دیگر مشکلاتیں آئیں وہ بھی کم نہیں تھیں، مہنگائی کا طوفان آیا جو ابھی تک جاری ہے، جس وقت ہم نے ذمہ داری سنبھالی تو مہنگائی کا سلسلہ بڑی تیزی سے شروع ہو چکا تھا اور اس وقت کی چار سالہ بدترین غفلت کے نتیجے میں نہ صرف داخلی محاذ پر بلکہ خارجی محاذ پر بھی پاکستان کے نام کو بری طرح مجروح کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپنے اپنے نقطہ نظر اور نظریات ہونے کے باوجود تمام اتحادیوں نے اپنی سیاست قربان کی اور ریاست کو بچایا.
انہوں نے کہا کہ جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا معاملہ آیا اور جب مہنگائی ہوتی تھی، تیل کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی تھیں تو آپ نے ان مشکل ترین فیصلوں کو بروئے کار لانے کے لیے سیاست کا نہیں سوچا، بلکہ آپ نے سیاست قربان کرکے سوچا کہ کس طرح قومی خزانے کو بھرا جائے اور اس سوچ پر میں نواز شریف، سابق صدر آصف علی زردار، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری، چوہدری شجاعت، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ایمل ولی اور دیگر اتحادیوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہر لمحے میری رہنمائی اور معاونت کی۔
انہوں نے کہا کہ سب کی شبانہ روز کاوشوں سے آج ہم اس اختتامی نقطے پر پہنچے ہیں جس کے ذریعے ایک نگران حکومت وجود میں آئے گی اور پھر آئندہ انتخابات ہوں گے اور جو بھی حکومت آئے گی ہم سب مل کر ملک کی کشتی کو پار کرنے کے لیے شبانہ روز محنت کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ سب نے دیکھا ہے لیکن اس سطح پر کسی نے ہمت نہیں ہاری۔