فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران فل کورٹ تشکیل دینے کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کہ کل سنایا جائے گا۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صدیقی صاحب نے ملٹری کورٹس کے معاملے پر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے، ہم جواد ایس خواجہ کے وکیل کو سنیں گے۔
جواد ایس خواجہ کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل سابق چیف جسٹس ہیں، میرے مؤکل کی ہدایت ہے کہ عدالت میرے ساتھ خصوصی برتاؤ کے بجائے عام شہری کی طرح برتاؤ کرے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ چیف جسٹس نہ لگایا جائے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم اسی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ گوشہ نشین انسان ہیں، ان کی آئینی درخواست غیر سیاسی ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا فیصل صدیقی صاحب چھپ رہے ہیں؟ وکیل شاہ فیصل نے بتایا کہ فیصل صدیقی کمرہ عدالت سے باہر ہیں، کچھ دیر میں آتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ ’پک اینڈ چوز‘ کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا، اگر انکوائری ہوئی تو ریکارڈ پر کیوں نہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’پک اینڈ چوز‘ نہیں کیا، بہت احتیاط برتی گئی، جو لوگ براہ راست ملوث تھے انہیں ہی ملٹری کورٹس بھیجا گیا، کور کمانڈر ہاؤس میں جو لوگ داخل ہوئے انہیں ملٹری کورٹس بھیجا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی فورم پر مواد ہوگا تو پتہ چلے گا کہ آپ کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا سوال ہے کہ دیگر افراد کو کیوں چھوڑا، بہت سے لوگ ملوث تھے لیکن شواہد کی روشنی میں افراد کو گرفتار کیا گیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ اگر کوئی انکوائری ہوئی ہے تو ریکارڈ پر کیوں نہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انکوائری ریکارڈ پر موجود ہے سر۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف ان افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہوں نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کور کمانڈر ہاؤس کو نقصان پہنچانے والوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے فوج کی تحویل میں موجود 9 مئی واقعات میں ملوث 102 ملزمان کی فہرست عدالت میں پیش کر دی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیر حراست 7 ملزمان جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں، 4 ملزمان نے آرمی انسٹی ٹیوٹ پر حملہ کیا، 28 ملزمان نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں حملہ کیا، 5 ملزمان ملتان، 10 گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں، 8 آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، 5 ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں، 14 چکدرہ حملے میں ملوث ہیں، 7 نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا، 3 ملزمان ایبٹ آباد، 10 ملزمان بنوں گریژن حملے میں ملوث ہیں، ایک ملزم آئی ایس آئی حمزہ کیمپ حملے میں ملوث ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ زیر حراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی کیمرے اور دیگر شواہد کی بنیاد پر کی گئی، فوجی ٹرائل کا سامنا کرنے والے زیر حراست افراد سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی ہے، تحریری جواب میں پورا چارٹ ہے کہ کتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، صرف 102 افراد کو گرفتار کیا گیا، بہت احتیاط برتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی حکومت ان 102 افراد کا کورٹ مارشل کرنا چاہتی ہے؟
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ افراد کی گرفتاری کیلئے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور شواہد کی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا، کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں داخل ہونے والے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ کے آرڈر میں ملزمان کو ملٹری کورٹس بھیجنے کی وجوہات کا ذکر نہیں ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لگتا ہے کہ ملزمان کے خلاف مواد کے نام پر صرف فوٹو گراف ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ایسا لگتا آپ ان سوالات پر پوری طرح تیار نہیں، ہمارے سامنے ابھی وہ معاملہ ہے بھی نہیں، ہم نے معاملے کی آئینی حیثیت کو دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ وکیل فیصل صدیقی نے ایک درخواست اپنے مؤکل کی طرف سے فل کورٹ کی دی ہے، ہم پہلے فیصل صدیقی کو سن لیتے ہیں۔
دریں اثناء فیصل صدیقی نے فل کورٹ بنچ کے تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنچ پر جو اعتراضات اٹھائے گئے اس سے ہماری درخواست کا تعلق نہیں ہے، پہلے میں واضح کروں گا کہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے کی 3 وجوہات بیان کیں، فوجی آمر پرویز مشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کر سکا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی، اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہوگی، اٹارنی جنرل یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں کہ عدالت کے علم میں لائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاستدانوں اور وزراء کی جانب سے عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے، جب اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہو تو فل کورٹ بنانا چاہیے، فل کورٹ کا بنایا جانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کچھ ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں۔
اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب ایف بی علی کیس میں ہے، سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے اگر ایک جج کیس سننے سے انکار کرے تو اسے وہ کیس سننے کا نہیں کہا جا سکتا ہے، عدالتی تاریخ میں ملٹری کورٹس کیسز فل کورٹ نے ہی سنے ہیں، حکومت کا سپریم کورٹ کیلئے توہین آمیز رویہ ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ جن 3 ججز کی آپ بات کر رہے ہیں انہوں نے ملٹری کورٹس کیس سننے سے انکار نہیں کیا، جواب میں فیصل صدیقی نے کہا کہ جس انداز میں عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کا حل نکالنا چاہیے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا دیگر درخواست گزاران کا بھی یہی مؤقف ہے؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں صرف اپنی بات کر رہا ہوں، اگر کچھ ماہ کی تاخیر ہو جائے تو مسئلہ نہیں، یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کے لئے یہ پہلی درخواست آئی ہے، ہم باقی درخواست گزاروں کا مؤقف بھی سننا چاہتے ہیں۔
دوران سماعت درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ سب میرے لئے حیران کن ہے کہ اس مرحلے پر آ کر بنچ کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کیلئے جیلوں میں گئے، ہمیں اس بنچ پر مکمل اعتماد ہے، عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بنچ میں شامل کیا تھا، 2 ججوں کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بنچ ہی ہے۔
اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ میں خود 1980 میں 80 دیگر وکلا کے ساتھ گرفتار ہوا تھا، ہم مارشل لاء کے خلاف کھڑے ہوئے تھے، 2 ججز اٹھنے سے کوئی تنازع موجود نہیں، 102 افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔
دریں اثناء اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آ گئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر 2 ججز بنچ چھوڑ گئے اور ایک پر اعتراض کیا گیا۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستوں کو سننے کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کیس میں جلد کسی رائے پر آجاتے ہیں تو 15 منٹ میں آگاہ کر دیا جائے گا، اگر فیصلہ میں تاخیر ہوئی تو وکلا کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
بعدازاں کورٹ ایسوسی ایٹ کی جانب سے جاری اعلان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ محفوظ فیصلہ کل سنائے گی۔