اسٹیٹ بینک کا شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

اسٹیٹ بینک کا شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کراچی میں مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ آج مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں گزشتہ اجلاسوں کا جائزہ لیا گیا اور آخری ریگولر اجلاس 12 جون کو ہوا تھا جس کے بعد ایک خاص اجلاس 26 جون کو ہوا تھا۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کمیٹی نے ان دونوں اجلاسوں کے درمیان جو معاشی اتار چڑھاؤ آیا ہے اس کا جائزہ لیا اور کمیٹی نے شرح سود کو 22 فیصد تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے بیرونی چیزوں، افراط زر میں پیش رفت کا بھی معائنہ کیا اور سی بی آئی میں سالانہ مہنگائی کا بھی جائزہ لیا گیا کیونکہ مئی میں افراط زر 38 فیصد تھی جو کہ جون کے مہینے میں کم ہوکر 29.4 فیصد رہ گئی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی سال 2023 میں افراط زر کا تناسب 29.2 فیصد رہا، کمیٹی نے اگلے سال کے لیے بھی افراط زر کا معائنہ کیا اور ماہر اقتصادیات کی پیش گوئی سے افراط زر 20 سے 22 فیصد رہنے کی توقع کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مئی میں افراط زر 29.4 فیصد تھی لیکن آنے والے مہینوں کے اندر یہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوگی، مزید کہا کہ اگلے سال جنوری سے جون تک افراط زر تیزی سے کم ہوگی، اور کمیٹی نے اصرار کیا ہے کہ مالی سال 2025 ختم ہونے سے قبل افراط زر کو 5 سے 6 فیصد تک لایا جائے گا جس کے لیے ہم درست سمت پر ہیں۔

جمیل احمد نے کہا کہ کمیٹی نے بیرونی قرض پروگرام کے بعد آنے والی مالی مدد سے ملک میں ہونے والے استحکام کا بھی جائزہ لیا اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس وقت ہمارے مالی اعداد و شمار میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے اگلے سال کے لیے معاشی آؤٹ لُک اور ترقی کا بھی جائزہ لیا اور بات چیت کے بعد کمیٹی نے اس تشخیص کی حوصلہ افزائی کی کہ اگلے سال کی نمو 2 سے 3 فیصد رہے گی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کمیٹی نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور اس سے منسلک پیش رفت کا بھی جائزہ لیا جس کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کے اگلے سال مہنگائی بہت کم ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے تشخیص کی کہ پالیسی ریٹ کو اس سطح پر برقرار رکھنے کے بعد حقیقی سود کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جولائی کے مہنے میں ہمارے پاس کافی ذخائر آئے جو ذخائر 4.5 ارب ڈالر پر تھے ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ہمارے پاس اضافی 4.2 ارب ڈالر کے اضافی ذخائر آئے جن میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 1.2 ارب ڈالر جبکہ 2 ارب ایک دوست ملک سے اور ایک ارب ڈالر دوسرے ملک سے آیا جس کے بعد ملکی ذخائر 8.7 ارب ڈالر پر چلے گئے ہیں اور جولائی کی 1.8 ارب ڈالر کی ادائیگیاں بھی کردی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہیں پر یہ نہیں کہا کہ پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے اپریل 2022 سے اب تک شرح سود میں 12.25 اضافہ کردیا ہے، جس کا بنیادی مقصد مہنگائی کا توڑ ہے، مرکزی بینک نے جون میں بھی شرح سود میں تبدیلی نہیں کی تھی۔

اسٹیٹ بینک نے جون میں کہا تھا کہ گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح بلندترین 38 فیصد کو پہنچ گئی تھی اور رواں ماہ اس میں کمی آئی ہے۔

دوسری جانب مہینے کے اختتام سے قبل ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ یقینی بنانے کے لیے ہنگامی اجلاس میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کردیا اور اس کا جواز پیش کیا تھا کہ مہنگائی میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے میمورنڈم آف اکنامکس اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں کہا گیا تھا کہ زری کمیٹی کے اگلے اجلاس میں مزید اقدامات کے لیے تیار ہیں، جب تک مہنگائی کی شرح واضح طور پر تنزلی کی طرف گامزن نہیں ہوتیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --