وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے سنگین اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے اس کے پاس سرد جنگ کی طرز پر بلاک کی سیاست کے لیے وقت نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹوکیو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امریکا اور چین کے تعلقات میں کشیدگی کے دوران دونوں سپر پاورز کے بلاک کی جانب اشارہ کیا۔
جاپان کے 4 روزہ سرکاری دورے پر موجود وزیر خارجہ نے اپنے جاپانی ہم منصب اور وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے 23 کروڑ لوگوں کی خوشحالی اور انہیں روزگار کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، جن میں سے دو تہائی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے ایسے وقت میں پاکستان کے پاور سیکٹر میں چینی سرمایہ کاری کی تعریف کی جب ملک کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس نے اس کی صنعتوں کو مفلوج کر دیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیکٌ) منصوبوں کے نتیجے میں پاکستان کے صنعتی، زرعی اور توانائی کے شعبوں میں پیدا ہونے والے مواقع کسی ایک ملک کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔
مزید تجارت کے لیے علاقائی رابطوں کو بڑھانے پر زور دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے اتفاق کیا کہ پاکستان کی گہرے روابط اور زیادہ تجارت کی خواہشات اس وقت تک پوری نہیں ہوں گی جب تک جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام نہیں ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک خطے کا بنیادی تنازع مسئلہ جموں کشمیر بات چیت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ اس طرح کی قرارداد کے لیے کام کرنے کے لیے تیار رہا ہے لیکن اس کا ’جنوبی ایشیا میں امن کے لیے کوئی شراکت دار‘ نہیں ہے۔
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ بھارت ’مذہبی جنون‘ کی گرفت میں ہے جس سے مذاکرات اور سفارت کاری کے لیے جگہ ختم ہورہی ہے انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جبر اور اس سے چھوٹے پڑوسی کے خلاف اشتعال انگیزی پر عالمی برادری کی ’مایوس کن خاموشی‘ پر افسوس کا اظہار کیا۔
تاہم بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چیزوں کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ معمول کے مطابق کاروبار اب کوئی آپشن نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ صرف وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر اپنے اسٹریٹجک محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کر سکتے ہیں تاکہ اقتصادی روابط کو فروغ دیا جا سکے اور ترقی کی جا سکے، یہ وژن جغرافیائی سیاست سے جیو اکنامکس کی جانب ہماری تبدیلی کے پیچھے متحرک قوت ہے۔
وزیر خارجہ نے جاپان کو ’ایک کلیدی ترقیاتی شراکت دار‘ اور پاکستان کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور صنعتی انفراسٹرکچر کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سب جاپان کو ایشیا میں پاکستان کے قریبی شراکت داروں میں سے ایک بناتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جبکہ پاکستان اور جاپان براعظم ایشیا کے مختلف کونوں میں واقع ہیں، ہم اپنے خطے کے لیے اپنے نقطہ نظر اور وژن کے لحاظ سے اہم ہم آہنگی رکھتے ہیں’۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں جاپانی مہارت کسی سے پیچھے نہیں اور پاکستان اور جاپان ہاتھ ملا کر ایک مضبوط اور مؤثر انفراسٹرکچر نیٹ ورک تشکیل دے سکتے ہیں، ساتھ ہی علاقائی رابطوں کو فروغ دے کر نہ صرف دوطرفہ بلکہ علاقائی تجارتی حجم کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی چیز سے بڑھ کر پاکستان اور جاپان علاقائی اہمیت کے مسائل خاص طور پر تنازعات کے حل، غربت کے خاتمے، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی صحت پر گفتگو میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور اسے تقویت دے سکتے ہیں۔