عراق کے دارالحکومت بغداد میں مظاہرین نے اسٹاک ہوم میں قرآن مجید جلانے کے ردعمل میں سویڈن کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے اور سویڈن کے خلاف نعرے بازی کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سویڈن میں مقیم ایک عراقی کی جانب سے قرآن پاک جلائے جانے کے واقعے پر دسیوں عراقی مظاہرین نے جمعرات کو بغداد میں سویڈش سفارت خانے میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی۔
ایک عینی شاہد فوٹوگرافر نے بتایا کہ شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامی مظاہرین سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئے اورقریباً 15 منٹ تک اندر رہے جس کے بعد وہ پرامن طور پر وہاں سے چلے گئے۔
مظاہرین نے سب سے پہلے مقتدیٰ الصدر کی اپیل کے جواب میں سفارت خانے کے باہر ریلی نکالی جس میں سویڈش سفیر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ اسٹاک ہوم میں بدھ کو قرآن مجید کا نسخہ جلانے پر متعدد مسلم ممالک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
عراقی مظاہرین نے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جن پر عربی اور انگریزی میں پیغامات درج تھے: "ہمارا آئین قرآن ہے۔ ہمارے لیڈر الصدر ہیں‘‘۔فوٹوگرافر کے مطابق سفارت خانے کی طرف جانے والے گیٹ پر ‘ہاں، قرآن کے لیے ہاں’ بھی لکھا ہوا تھا۔
مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے ہم جنس پرستوں (ایل جی بی ٹی کیو) کی کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے قوس قزح کے جھنڈے بھی نذر آتش کیے،جب طاقتور عالم دین نے کہا کہ یہ ان لوگوں کو مشتعل کرنے کا بہترین طریقہ ہوگا جو قرآن جلانے کی حمایت کرتے ہیں۔
ادھراسٹاک ہوم میں سویڈش وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ صورت حال کے بارے میں اچھی طرح آگاہ ہے۔ ہمارے سفارت خانے کا عملہ محفوظ ہے۔
کئی سال قبل عراق سے فرار ہو کر سویڈن پناہ گزین ہونے والے 37 سالہ سلوان مومیکا نے بدھ کو اسٹاک ہوم میں سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن مجید کے کئی صفحات نذر آتش کیے تھے۔آزادیِ اظہار رائے کے تحفظ کے تحت اسے پولیس کی جانب سے احتجاج کے لیے خصوصی اجازت نامہ دیا گیا تھا۔عراقی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔