فلپ مورس کا پاکستان میں بڑھتی ہوئی غیرقانونی سگریٹ کی فروخت پر خدشات کا اظہار

فلپ مورس کا پاکستان میں بڑھتی ہوئی غیرقانونی سگریٹ کی فروخت پر خدشات کا اظہار

پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والی سگریٹ کی صنعت کی فروخت میں نمایاں کمی کا سامنا ہے جس سے قومی خزانہ کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ غیرقانونی سگریٹ کی فروخت بڑھنے سے مالی سال 2022-23کے لیے حکومت کے ٹیکس اہداف بھی متاثر ہورہے ہیں جبکہ حکومت کے ملک میں تمباکونوشی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کا عزم بھی متاثر ہورہا ہے۔

صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقا ت میں فلپ مورس پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر محمد ذیشان نے تیزی سے بڑھتی ہوئی غیرقانونی سگریٹ کی فروخت اور اس کے قومی خزانے کے لیے نقصانات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کے بعد سے سگریٹ کی غیرقانونی فروخت کا رجحان برقرار رہا تو حکومت کے لیے ٹیکس اہداف پورے کرنا مشکل ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں رواں مالی سال 200فیصد اضافہ کردیا جس کے نتیجے میں مارچ اور اپریل 2023کے دوران پاکستان کی دو دستاویزی کمپنیوں میں سے ایک فلپ مورس پاکستان کی فروخت میں 70فیصد اور پیداوار میں 60فیصد تک کمی آچکی ہے۔ غیرقانونی سگریٹ کی فروخت کا رجحان برقرار رہنے کی صورت میں قانونی فروخت اور پیداوار میں کمی کا سلسلہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہنے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 31مارچ 2023کو ختم ہونیو الی سہ ماہی میں کمپنی نے قومی خزانے میں ایکسائز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور دیگر لیویز کی مد میں 5ارب 99کروڑ روپے کے محصولات جمع کرائے ہیں تاہم ان محصولات کی مالیت میں بھی گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 16.4فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ فلپ مورس سے قومی خزانے میں جمع کرائے جانے والے ٹیکسوں میں کمی بنیادی طور پر فروری 2023میں کی جانے والی ایکسائز ریگولیشن کے نتیجے میں قیمت بڑھنے کی وجہ سے فروخت میں آنے والی کمی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایکسائز ڈیوٹی میں غیرمتوقع اور غیرمتوازی اضافہ سے غیرقانونی سگریٹ بنانے والوں کو اپنے قدم اور مضبوطی سے جمانے اور اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کا موقع ملا ہے جبکہ ٹیکس ادا کرنے والی منظم صنعت بحران کا شکار ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹٰی کے بڑھنے سے سگریٹ انڈسٹری سے حاصل ہونے والا ریونیو 260ارب کے ہدف کے بجائے 200ارب روپے تک محدود رہنے کا امکان ہے۔

یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ دستاویزی سگریٹ انڈسٹری قومی خزانے میں سگریٹ سے حاصل ہونیو الے محصولات میں 98فیصد کی حصہ دار ہے جبکہ دیگر تمام مینوفیکچررز مل کر محض 2فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

محمد ذیشان احمد نے کہا کہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ غیرقانونی سگریٹ کی مارکیٹ کے خلاف سخت تادیبی اقدامات کیے جائیں جس کا موجودہ حجم مارکیٹ کا 40فیصد ہے جو عنقریب بڑھ کر 50فیصد تک آسکتا ہے ایسی صورت میں پاکستان دنیا میں سگریٹ کی غیرقانونی فروخت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف بذات خود سگریٹ کی غیرقانونی فروخت سے قومی خزانے کو 100ارب روپے کے نقصانات کا اعتراف کرچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عالمی تحقیقی ادارے یورومانیٹرکی رپورٹ کے مطابق 2022میں پاکستان میں سگریٹ کی غیرقانونی فروخت کا مارکیٹ شیئر 40فیصد ریکارڈ کیا گیا اور پاکستان کو جنوبی ایشیاء میں غیرقانونی سگریٹ کی فروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا ہے۔

انہوں نے ٹریک اینڈ ٹریس نظام تمام سگریٹ مینوفیکچررز پر لاگو کرنے پر زور دیتے ہوئے کہ اکہ اس سسٹم کا اب تک اطلاق صرف کچھ ہی کمپنیوں پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ عدالتوں سے حکم استثنیٰ ختم ہوتے ہی تمام کمپنیوں میں ٹریک اینڈ ٹریس کے نفاز کو یقینی بنایا جائے۔ مینوفیکچرنگ سہولتوں کی موثر نگرانی ملک میں سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی غیرمعمولی شرح پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ موجودہ شرح نہ صرف قانونی صنعت کی فروخت پر اثرانداز ہورہی ہے بلکہ غیرقانونی فروخت میں اضافہ کا بھی سبب بن رہی ہے جبکہ حکومت کے لیے بھی مالیاتی چیلنجز میں اضافہ کا سبب ہے۔

محمد ذیشان احمد نے تمباکو سے متعلق قوانین کے پوری صنعت پر یکساں اطلاق کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ قانونی صنعت کو یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔ یہ اقدامات حکومت کے ریونیو کے تحفظ اور دستاویزی صنعت کی فروخت میں مزید کمی کو روکنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --