پنجاب، خیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

پنجاب، خیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن  کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت  مکمل ہوگئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو کہ کل سنایا جائے گا۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ  نے کی کی سماعت کی۔سپریم کورٹ میں آج سماعت کے موقع پر سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت ہے جن کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔

سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔

اٹارنی جنرل کی 7 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ازخودنوٹس کیس نہ سننے والےججزپر مشتمل عدالتی بینچ بنایا جائے۔حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنائے جانے کی صورت میں سپریم کورٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

یکم اپریل کو ہونے والے اجلاس کے بعد حکومتی اتحادی جماعتوں کے اعلامیے میں حکومتی اتحاد نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔

آج سماعت شروع ہوئی توپاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کیس کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے؟ وکیل پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مشاورت کرکے ہمیں بتائیں، ہمیں تحریری طور پربتائیں، اگربائیکاٹ نہیں کیا تو بھی بتائیں، اخبارات میں آیا ہےکہ پیپلزپارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ  سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ  آپ بائیکاٹ کرکے دلائل دینے آگئے، اجلاس میں کہا گیا ہےکہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ  سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس پر لارجر بینچ بننا چاہیے۔

وکیل ن لیگ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا، ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے،ہمیں بینچ پر تحفظات ہیں، وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا ہے، 48 گھنٹوں سےقومی پریس میں بائیکاٹ کا اعلان چل رہا ہے ، اگرآپ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہمیں بتائیں ، آپ کو ہم پر اعتماد ہی نہیں تو آپ دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ ہی کرنا ہےتو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی اس بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو تحریری طور پر بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس نکتے پر پہلے بات کرچکے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے اسی بات کی توقع ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ سناچکی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیسے تاریخ آگے بڑھاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا حکم ایگزیکٹو سمیت سب اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کا ہی تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا  تھا جس میں سے4 ججز نے درخواستیں مستردکیں، 4 ججز نے تفصیلی فیصلے جاری کر دیے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے درخواستوں کو مستردکیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس یحیٰی آفریدی کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا، 9رکنی لارجربینچ نے 2 دن کیس کی سماعت کی تھی۔

اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آگئے

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز نے27 فروری کے آرڈر میں بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ مجھے بھجوایا، ہمیں کوئی فیصلہ بتائیں جس میں چیف جسٹس کو نیا بینچ بنانے سے روکا گیا ہو؟ اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ پشاورکا کیس ہے جس میں چیف جسٹس کو مرضی کے بینچ سے روکا گیا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ پشاورکیس کا حکم آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کا آرڈر آف دی کورٹ اب تک جاری نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کون سا قانون یا ضابطہ عدالت کو آرڈر آف دی کورٹ جاری کرنےکا پابند کرتا ہے؟ کیاآپ 4 ججز کے فیصلے کو ہی جوڈیشل آرڈر تسلیم کرتے ہیں؟ اگر 4 ججزکا فیصلہ ہی تسلیم کرلیں تب بھی بینچ تشکیل دینےکا اختیار کیاچیف جسٹس کے سوا کسی کو ہے؟

اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کو کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیےگورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنےکا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائےگئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لےکر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہوچکا۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامےکا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا توباقی استدعا ختم ہوجائیں گی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی کاروائی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے، ججز کی رائے الگ ہوتی رہتی ہے، سپریم کورٹ میں ہمارے مختلف خیالات ہوتے ہیں لیکن مشاورت بھی ہوتی ہے، ہماری بینچ سے الگ بھی آپس میں بات چیت ہوتی ہے، اس سے متعلق جواد ایس خواجہ نے اپنی یادداشتیں بھی لکھی ہیں، اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اپنی نشست سے کھڑے ہوکر بول پڑے اور کہا کہ آپ اسے مت کوٹ کریں، وہ جھوٹ ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا خیال ہے اکثریتی ججز از خود نوٹس مسترد کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ آپ پانچ رکنی بینچ کا حکم نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کوبینچ بنانےکا اختیار دیا تھا، اس بینچ میں چار ججز نے خود کو الگ کیا، بینچ دوبارہ تشکیل دیا اس لیے انہیں شامل نہیں کیا، دو ججز نے بھی الگ سے آرڈر جاری کیا، تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ چیف جسٹس نے جو اختیار استعمال کیا وہ انتظامی نہیں عدالتی ہے، مقدمےکی سماعت میرٹ پرکی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا چیف جسٹس چاہیں تو مجھے بینچ میں دوبارہ شامل کرسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ جب جج نے کہہ دیا چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں رکھے یا نہیں تو بات ختم، کسی کیس میں ایسا ہوا کہ ایک دن جج درخواست مسترد کرے اگلے دن اسی بینچ میں بیٹھ جائے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججزکی آپس میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے آپسی معاملات ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں، تفصیلی اختلافی نوٹ میں بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نکتہ شامل نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ نوٹ کے مطابق چارججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے،دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے بھی سماعت میں دونوں ججزکے رکن ہونےکا نکتہ نہیں اٹھایا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چار آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فٹ نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ دوججزکی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلےکا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکم نامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نکتے پر قائل نہیں کرسکے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا حکم واضح نہیں۔

اٹارنی جنرل نےکہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کا حکم سب پرلاگو ہوتا ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آپ موجودہ کیس کی بات کریں اس کیس میں ایسی کوئی درخواست نہیں ہے، دو ججزنے فیصلہ دیا، آپ اس کو جس طرح پڑھنا چاہیں پڑھیں۔

چیف جسٹس نےکہا کہ آپ جوکہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے، بہت اہم معاملات پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے، بینچ کے تناسب والے معاملے پر آپ کا نکتہ سمجھ گئے، امید ہے آپ بھی ہمارا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے، دو سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی نے درخواستیں دائرکی تھیں، دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج فل کورٹ بنانے کی درخواست لےکر آیا ہوں، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ آپ نے فل کورٹ مسترد کر دی، آپ کے حکم نامے میں ایسی بات نہیں تھی۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مقدمہ ملتوی کرنا چاہتے ہیں؟ ایک طرف آپ فل کورٹ کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف التوا کا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ آپ اپنی دلیل قیاس آرائی پر قائم کر رہے ہیں، یہ عدالت ازخود نوٹس پر بہت احتیاط کرتی ہے، اب تک اس عدالت نے از خود نوٹس پر بہت احتیاط کی بھی ہے، از خود نوٹس میں کیا پتا ہوتا ہے کہ دوسرا فریق آئےگا یا نہیں، اسپیکرز کی درخواست کے علاوہ دو ججز نے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی، آپ چیزوں کو خود سے پالش کرکے پیش کر رہے ہیں، رولز کی بات ٹھیک ہے مگر لوگوں کے اہم معاملات چھوڑ نہیں سکتے، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان نے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت مؤخر کردی جائے۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ آپ اپنا ذہن بنالیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں؟ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات دوسری طرف کیس مؤخرکرنےکا کہہ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نےکہا کہ میری دانست اور میڈیا رپورٹس کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوچکی، پہلی سماعت اورپھر جمعےکو بھی فل کورٹ کی استدعا کی مگرمانی نہیں گئی، فل کورٹ مسترد کرنےکا معاملہ حکم نامے میں بھی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھاہے 5 رکنی بینچ کے فیصلےکی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پرسرکلر آیا ہے، فیصلےمیں لکھا ہے مناسب ہوگا 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے نہ کہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہرمقدمے میں ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کی تیسری کیٹیگری میں آسکتا ہے، 184/3 کے رولز بننے تک سماعت مؤخرکی جائے۔

-- مزید آگے پہنچایے --