2023ء کے خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کی تین خواتین افسران نے اپنے پیشہ ورانہ سفر اور تجربات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے مالی شعبے میں خواتین کی حیثیت اور جائے کار پر صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے اسٹیٹ بینک کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔ اس مکالمے میں پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی کم شرح، مالی خدمات تک رسائی کے فقدان اور کاروبار میں خواتین کے لیے محدود مواقع سمیت کئی مسائل پر روشنی ڈالی گئی۔
بات چیت میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے ستمبر 2021 میں شروع کی گئی "برابری پر بینکاری” پالیسی پر روشنی ڈالی گئی۔ اس پالیسی کے پانچ ستون ہیں جن کا مقصد صنفی مرکزی دھارے کا طریقہ کار (gender mainstreaming) بنانا اور مالی اداروں میں خواتین کے لیے سازگار پالیسیوں کو فروغ دینا ہے۔ ان ستونوں میں صنفی تنوع، مصنوعات اور خدمات کا ڈیزائن، ہر برانچ میں کم از کم ایک ’ویمن چیمپئن‘کا تقرر کرکے خواتین صارفین کو سہولت فراہم کرنا، ایس ایم ای، زراعت اور مائیکرو فنانس کے شعبوں میں خواتین کی شرکت میں اضافہ، اور صنف اور مالیات پر ایک اعلیٰ سطحی پالیسی فورم کی تشکیل شامل ہیں۔پالیسی میں اگلے تین برسوں کے دوران بینکوں میں خواتین عملے کی تعداد 13.2 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک اپنی افرادی قوت میں تنوع کی وجہ سے ایک منی پاکستان ہے۔ ملک بھر سے خواتین اسٹیٹ بینک میں ملازمت کے لیے کراچی آتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ ملک کے کونے کونے سے خواتین کو محفوظ طریقے سے اسٹیٹ بینک کا حصہ بنیں خواتین کو مکمل حفاظتی حل فراہم کرنے کے مترادف ہے اور اسٹیٹ بینک اس سلسلے میں کافی کامیاب رہا ہے۔ اس نے نہ صرف مالی اداروں کے لیے بلکہ دوسرے کاروباری اداروں کے لیے بھی مثال قائم کی ہے۔
شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ طلب اور رسد دونوں عوامل مالی خدمات میں صنفی فرق کو برقرار رکھتے ہیں کیونکہ خواتین کو تاریخی طور پر مالی اداروں کی طرف سے مناسب اہمیت نہیں دی گئی ہے اور انہیں کئی سماجی اور اقتصادی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی 50 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن لیبر فورس میں ان کی شرکت صرف 13.7 فیصد ہے۔ ملک میں بینک اکاؤنٹ رکھنے والی خواتین کا تناسب تمام بالغ آبادی کا 39 فیصد ہے۔ ان عوامل کے نتیجے میں مالی شعبے میں بہت بڑا خلا ہے کیونکہ بینک کا صرف 12 فیصد عملہ خواتین پر مشتمل ہے اور 9 فیصد خواتین کو ایس ایم ای فنانسنگ تک رسائی حاصل ہے۔
اسٹیٹ بینک مختلف اقدامات کے ذریعے ادارے میں صنفی فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے جیسے خواتین کے لیے محفوظ کام کا ماحول فراہم کرنا، جائے کار پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے باقاعدگی سے تربیت کا اہتمام کرنا اور خواتین عملے کی تعداد بڑھانے کے لیے ایک خصوصی خواتین بیچ بھرتی کرنا۔
مجموعی طور پر مکالمے نے مالی شعبے میں صنفی مساوات کو فروغ دینے اور بینکوں کے لیے خواتین کو ایک قابل عمل کاروباری طبقے کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے مزید ٹھوس کوششوں کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کی کوششوں کا مقصد پاکستان میں خواتین کے لیے ایک زیادہ جامع اور مساوی جائے کار کو وجود میں لانا ہے۔