مولانا وحید الدین خان
11نومبر1986ء کی صبح کو میرے ساتھ ایک” حادثہ” پیش آیا۔میری عینک پتھر کے فرش پر گر پڑی۔اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے مجھے جھٹکا لگا۔ پھر میں نے سوچاکہ اس دنیا میں تو ہمیشہ یہی ہو گا کہ یہاں پتھر کا فرش بھی رہے گا اور نازک شیشہ بھی۔ اس لیے اس دنیا میں حفاظت اس کا نام نہیں ہے کہ چیزیں نہ ٹوٹیں۔ اس دنیا میں حفاظت یہ ہے کہ ٹوٹنے کے باوجود ہم چیزوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ محرومی کے درمیانی واقعات پیش آنے کے باوجود ہم اپنے آپ کو آخری محرومی سے بچائیں۔گلاب کا پھول کتنا خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کو پھولوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ مگر جس ڈالی میں گلاب کا نازک پھول کھلتا ہے، اسی ڈالی میں سخت کانٹے بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ ہمارے لیے نا ممکن ہے کہ ہم پھول کو کانٹے سے جدا کر سکیں۔ ہمیں کانٹے کے باوجود پھول کو لینا ہو گا۔ ہم اس دنیا میں کانٹے کے بغیر پھول کو نہیں پا سکتے۔
یہ زندگی کا ایک سبق ہے جو فطرت کی خاموش زبان میں ہمیں دیا جا رہاہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں”باوجود” کا اصول کارفرما ہے۔ یہاں نا خوشگواریوں کے باوجود خوش گواری کو قبول کرنا پڑتا ہے، یہاں”نہیں” کے باوجود اس کو”ہے” میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
یہی اس دنیا کا عام اصول ہوتا ہے۔ یہاں کامیابی اس کا نام ہے کہ آدمی ناکامیوں کے باوجود کامیابی تک پہنچنے کا راستہ نکالے۔ یہاں تجارت یہ ہے کہ گھاٹے کے باوجود نفع حاصل کیا جائے۔ یہاں آگے بڑھنا یہ ہے کہ پیچھے ہٹنے کے واقعات پیش آنے کے باوجود آگے کا سفر جاری رکھا جائے۔ اس دنیا میں کھونے کے باوجود پانے کا نام پانا ہے۔ یہاں اتحاد صرف ان لوگوں کے درمیان قائم ہوتا ہے جو اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا فن جانتے ہیں۔